Anwar-ul-Bayan - Al-Israa : 82
عَلَّمَهٗ شَدِیْدُ الْقُوٰىۙ
عَلَّمَهٗ : سکھایا اس کو شَدِيْدُ الْقُوٰى : زبردست قوت والے نے
ان کو نہایت قوت والے نے سکھایا
(53:5) علمہ شدید القوی : علم فعل، شدید القوی فاعل ہ ضمیر مفعول اول القران محذوف مفعول ثانی، ایک بڑے طاقتور (فرشتہ) نے ان کی تعلیم قرآن کی۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب کا مرجع رسول کریم ﷺ ہیں۔ شدید القوی۔ شدید سخت مستحکم ، پکا، مضبوط، شد سے جو بروزن فعیل صفت مشبہ کا صیغہ ہے۔ مضاف، القوی جمع قوۃ واحد طاقتیں۔ سخت اور مضبوط قوتوں والا اس سے مراد عام مفسرین کے نزدیک حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں۔ یعنی حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نےحضور ﷺ کو قرآن سکھایا۔ فائدہ : اس آیت سے لے کر لقد رأی من ایت ربہ الکبری آیت 16 تک کی تفسیر میں علمائے کرام کا اختلاف ہے۔ ایسی روایات بھی موجود ہیں کہ جن سے پتہ چلتا ہے کہ عہد صحابہ کرام ؓ میں بھی ان آیات کے بارے میں اختلاف رہا ہے۔ جہاں تک آیات کی نصوص کا تعلق ہے ان سے دونوں مفہوم اخذ کئے جاسکتے ہیں اور کوئی ایسی حدیث مرفوع بھی موجود نہیں جو ان آیات کے مفہوم کو متعین کر دے ۔ ورنہ ایسے ارشاد نبوی کی موجودگی میں ایسا اختلاف سرے سے رونما ہی نہ ہوتا۔ اسی طرح بعد میں آنے والے علماء ان آیات کے بارے میں دو گروہوں میں منقسم ہیں اپنی دیانتدارانہ تحقیق کی روشنی میں ہمیں یہ حق تو پہنچتا ہے کہ ان دو قولوں میں سے کوئی ایک قول اختیار کرلیں لیکن ہمیں یہ حق ہرگز نہیں پہنچتا کہ دوسرے قول کے قائلین کے بارے میں ہم کسی بدگمانی کا شکار ہوں۔ (تفسیر ضیاء القرآن) ۔ مزید تشریح و وضاحت یا ہر دو فریقین کی دلائل مستند تفاسیر میں ملاحظہ فرمائے جاسکتے ہیں ہم نے ذیل میں عام مفسرین کی رائے کو اختیار کیا ہے۔ عام مفسرین کے نزدیک شدید القوی سے مراد حضرت جبرائیل (علیہ السلام) ہیں جیسا کہ اور جگہ ارشاد ربانی ہے انہ لقول رسول کریم ۔ ذی قوۃ عند ذی العرش مکین ۔ (81:19-20) کہ یہ (قرآن) ایک معزز قاصد کا لایا ہوا ہے جو قوت والا ہے، مالک عرش کے ہاں عزت والا ہے۔ (قاصد یعنی حضرت جبرائیل کو ذی قوۃ بیان فرمایا۔
Top