Anwar-ul-Bayan - An-Najm : 9
فَكَانَ قَابَ قَوْسَیْنِ اَوْ اَدْنٰىۚ
فَكَانَ قَابَ : تو تھا اندازے سے۔ برابر قَوْسَيْنِ : دو کمان کے اَوْ اَدْنٰى : یا اس سے کم تر۔ قریب
تو وہ کمان کے فاصلے پر یا اس سے بھی کم
(53:9) فکان قاب قوسین : اس میں کان کا اسم محذوف ہے تقدیر کلامیوں ہے : فکان مقدار ما بینھما قاب قوسین۔ کان فعل ناقص مقدار (اسم کان محذوف) قاب قوسین خبر کان۔ قاب (ق و ب مادہ) کے معنی کمان کے درمیان والے حصہ کو کہتے ہیں۔ مقبض (مٹھ) سے لے کر ایک گوشہ کمان تک کے فاصلہ کے ہیں۔ اور قوس کی طرف اضافت کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ یعنی ایک قوس کی مقدار یا فاصلہ۔ القوس : قطعۃ من الدائرۃ۔ دائرہ کے کسی حصہ کو قوس کہتے ہیں۔ القوس عام طور پر اس آلہ کو کہتے ہیں جس سے تیر پھینکے جاتے ہیں۔ الۃ علی ہیئۃ ہلال ترمی بھا السھام۔ ہلال کی شکل کا آلہ جس سے تیر پھینکے جاتے ہیں۔ قاب قوسین دو قوس کی مقدار۔ یعنی ایک کمان۔ لغات القرآن میں اس کی تشریح یوں کی گئی ہے :۔ قاب : اندازہ۔ مقدار۔ یا کمان کے قبضہ سے نوک تک کا فاصلہ ۔ یعنی آدھی کمان کی لمبائی۔ (تاج، صحاح، راغب، معجم) ۔ اہل عرب کسی مسافت کا اندازہ کرنے کے لئے مختلف الفاظ بولتے تھے۔ مثلاً کمان برابر، ایک نیزے کے برابر، ایک کوڑے کے برابر، ہاتھ بربار، بالشت برابر۔ انگلی برابر وغیرہ۔ آیت میں لفظی قلب کردیا گیا ہے اصل میں قابی قوس تھا یعنی کمان کے دو قاب برابر۔ ایک کمان کے دو قاب ہوتے ہیں۔ یعنی وسطی قبضہ سے دونوں طرف کے حصے برابر ہوتے ہیں۔ دو قاب پوری کمان کے برابر ہوگئے۔ (معجم القرآن) صاحب منتہی الارب نے بھی آیت میں لفظی قلب نقل کیا ہے۔ لیکن قاب کے عام (معنی) اندازہ و مقدار بھی لکھا ہے۔ محلی نے بھی مقدار ترجمہ کیا ہے ۔۔ لیکن عام اہل تفسیر نے لکھا ہے کہ نہ قلب مکانی کی ضرورت ہے نہ دو کمانوں کے برابر فاصلہ قرار دینے کی۔ کیونکہ اس جگہ کلام کی بناء اہل عرب کے رواج اور دستور پر ہے۔ عرب میں جب وہ شخص گہری دوستی اور ایک روح دو قالب ہونے کا پیمان باندھتے تھے تو ہر ایک اپنی مکان نکال کر لاتا تھا پھر دونوں کمانوں کو اس طرح ملا دیا جاتا تھا کہ دونوں قبضے مل جاتے تھے ، گوشے مل جاتے تھے۔ تانت مل جاتی تھی۔ گویا دونوں کمانیں جڑ کر ایک ہوجاتی تھیں۔ پھر دونوں سے ملا کر ایک تیر پھینکا جاتا تھا۔ مطلب یہ ہوتا تھا کہ ہم دونوں ان دونوں کمانوں کی طرح ایک ہوگئے۔۔ اس صورت میں حضرت جبرائیل (علیہ السلام) اور رسول مقبول ﷺ کے درمیان فاصلہ ثابت ہوگا جتنا دو کمانوں کو جوڑنے کے بعد دونوں کے درمیان ہوتا ہے یعنی بالکل فاصلہ نہ رہے گا۔ دونوں کا بالکل متصل ہونا سمجھا جائے گا۔ (واللہ اعلم) او ادنی۔ اس جگہ او بمعنی یا (شکیہ) نہیں ہے بلکہ او بمعنی بل ہے جیسے کہ آیت وارسلنہ الی مائۃ الف او یزیدون (37:147) اور ہم نے ان کو ایک لاکھ بلکہ اس سے زیادہ (لوگوں) کی طرف ّپیغمبر بنا کر) بھیجا۔ ادنی۔ افعل التفضٰل کا صیغہ واحد مذکر اقصی کے مقابلہ میں آتا ہے۔ بہت نزدیک ۔ قریب تر۔
Top