Anwar-ul-Bayan - Ar-Rahmaan : 19
مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیٰنِۙ
مَرَجَ الْبَحْرَيْنِ : اس نے چھوڑ دیا دو سمندروں کو يَلْتَقِيٰنِ : کہ دونوں باہم مل جائیں
اسی نے دو دریا رواں کئے جو آپس میں ملتے ہیں
(55:19) مرج : ماضی واحد مذکر غائب۔ اس نے چھوڑا۔ اس نے مخلوط کیا۔ اس نے چلایا۔ اس نے رواں کیا۔ (نیز ملاحظہ ہو 55:15) متذکرہ الصدر۔ البحرین : دو سمندر۔ بحر کا تثنیہ۔ بحالت نصب و جر۔ اور سورة الفرقان میں ان دو سمندروں کا ذکر یوں ہے :۔ ھو الذی مرج البحرین ھذا عذب فرات وھذا ملح اجاج وجعل بینھما برزخا وحجرا محجورا (25:53) اور وہی تو ہے جس نے دو دریاؤں کو ملا دیا۔ (مخلوط کیا) ایک کا پانی شیریں ہے پیاس بجھانے والا۔ اور دوسرے کا کھاری کڑوا۔ (چھاتی جلانے والا) اور دونوں کے درمیان ایک آڑ اور مضبوط اوٹ بنادی۔ مولٰنا اشرف علی تھانوی (رح) اپنی تفسیر بیان القرآن میں مثالاً ذکر کرتے ہیں اراکان سے چاٹگام تک ملے جلے چلتے ہیں۔ ایک کا پانی سفید ہے اور ایک کا سیاہ۔ سیاہ میں سمندر کی طرح تلاطم آتا ہے مگر سفید ساکن رہتا ہے۔ کشتی سفید پانی میں چلتی ہے اور دونوں کے درمیان ایک دھاری سی چلی گئی ہے۔ سفید کا پانی میٹھا ہے اور سیاہ کا کڑوا۔ مولانا دریا آبادی اپنی تفسیر ماجدی میں لکھتے ہیں :۔ ماہرین فن کا بیان ہے کہ سطح زمین کے نیچے پانی کے دو مستقل نظام جاری ہیں ۔ ایک سلسلہ آب شور کا ہے جو کہ سمندروں سے ظاہر ہوتا ہے۔ دوسرا سلسلہ آب شیریں کا ہے جو عموماً دریاؤں ۔ کنووں۔ جھیلوں سے نکلتا ہے۔ عام مشاہدہ سے بھی پایا جاتا ہے کہ زمین کے نیچے کھاری اور میٹھے پانی کے دھارے میلوں تک ساتھ ساتھ موجود ہیں اور بعض جگہ ایک فٹ کے فاصلہ پر ایک کنویں کا پانی میٹھا اور دوسرے کا کھارا نکل آتا ہے اسی طرح ایک سطح پر پانی کھارا ہے تو چند فٹ نیچے جاکر میٹھا پانی آجاتا ہے اور اس کے برعکس بھی۔ یلتقین : مضارع تثنیہ مذکر غائب التقاء (افتعال) مصدر۔ وہ دونوں ملے ہوئے ہیں۔ وہ دونوں ملتے ہیں۔
Top