Anwar-ul-Bayan - Ar-Rahmaan : 27
وَّ یَبْقٰى وَجْهُ رَبِّكَ ذُو الْجَلٰلِ وَ الْاِكْرَامِۚ
وَّيَبْقٰى : اور باقی رہے گی وَجْهُ رَبِّكَ : تیرے رب کی ذات ذُو الْجَلٰلِ : بزرگی والی وَالْاِكْرَامِ : اور کرم والی
اور تمہارے پروردگار ہی کی ذات (بابرکت) جو صاحب جلال و عظمت ہے باقی رہے گی
(55:27) یبقی : مضارع واحد مذکر غائب بقاء (باب سمع) مصدر۔ باقی رہیگا۔ فناء نہ ہونا۔ وجہ ربک : وجہ مضاف، ربک مضاف مضاف الیہ مل کر وجہ کا مضاف الیہ اس کے اصل معنی چہرہ کے ہیں جیسا کہ اور جگہ قرآن مجید میں ہے فاغسکوا وجوہکم وایدیکم (5:6) اپنے منہ اور ہاتھ دھولیا کرو۔ اور چونکہ استقبال کے وقت سب سے پہلے انسان کا چہرہ سامنے نظر آتا ہے۔ اس لئے کسی چیز کا وہ حصہ جو سب سے پہلے نظر آئے اسے وجہ کہہ لیتے ہیں وجہ النھار۔ ان کا اول حصہ۔ وجہ بمعنی ذات ہے جیسا کہ آیت ہذا میں : اور تمہارے پروردگار ہی کی ذات (بابرکت) جو صاحب جلال و عظمت ہے۔ باقی رہ جائے گی یا جیسے اور جگہ قرآن مجید میں آیا ہے :۔ کل شیء ہالک الا وجھہ (27:88) اس کی ذات پاک کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔ ذوالجلال مضاف مضاف الیہ مل کر صفت ہے وجہ کی۔ (اللہ کی ذات جو صاحب جلال ہے) ۔ جلال بندگی، عظمت، بلند مرتبہ ہونا۔ جل یجل (باب ضرب) کا مصدر ہے۔ جلالۃ کے معنی عظمت قدر، یعنی بلند مرتبہ ہونے اور جلال کے معنی عظمت قدر کی انتہاء کے ہیں۔ اسی لئے یہ اللہ تعالیٰ کی مخصوص صفت ہے چناچہ یہ ذوالجلال والاکرام صرف اسی کو کہا جاتا ہے دوسروں کے لئے استعمال نہیں کیا جاسکتا۔ والاکرام اس کا عطف الجلال پر ہے۔ اللہ کی ذات صاحب جلال و صاحب اکرام ہے۔ اکرام باعظمت ہونا دوسرے کو عزت دینا۔ اور اس پر کرم کرنا۔ بروزن افعال مصدر ہے۔ اکرام کے دو معنی آتے ہیں :۔ (1) یہ کہ دوسرے پر کرم کیا جائے ۔ یعنی اس کو ایسا نفع پہنچایا جائے جس میں کسی طرح کا کھوٹ نہ ہو۔ (2) یہ کہ جو چیز عطا کی جائے وہ عمدہ چیز ہو۔ آیت ذوالجلال والاکرام میں لفظ اکرام میں دونوں معنی پائے جاتے ہیں کرم کا لفظ قرآن مجید میں جہاں بھی آیا ہے وہاں احسان و انعام الٰہی مراد ہے۔
Top