Anwar-ul-Bayan - Ar-Rahmaan : 33
یٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَ الْاِنْسِ اِنِ اسْتَطَعْتُمْ اَنْ تَنْفُذُوْا مِنْ اَقْطَارِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ فَانْفُذُوْا١ؕ لَا تَنْفُذُوْنَ اِلَّا بِسُلْطٰنٍۚ
يٰمَعْشَرَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ : اے گروہ جن و انس اِنِ اسْتَطَعْتُمْ : اگر تم استطاعت رکھتے ہو اَنْ تَنْفُذُوْا : کہ تم نکل بھاگو مِنْ اَقْطَارِ : کناروں سے السَّمٰوٰتِ : آسمانوں کے وَالْاَرْضِ : اور زمین کے فَانْفُذُوْا ۭ : تو بھاگ نکلو لَا تَنْفُذُوْنَ : نہیں تم بھاگ سکتے اِلَّا بِسُلْطٰنٍ : مگر ساتھ ایک زور کے
اے گروہ جن و انس ! اگر تمہیں قدرت ہو کہ آسمان اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ تو نکل جاؤ اور زور کے سوا تم نکل سکنے ہی کے نہیں
(55:33) یمعشر الجن والانس : یا حرف نداء ہے معشر الجن والانس منادی۔ معشر الجن مضاف مضاف الیہ ۔ الانس کا عطف الجن پر ہے۔ ای و معشر الانس، مشعر اسم مفرد ہے۔ بڑا گروہ ۔ اس کی جمع معاشر ہے۔ اے گروہ جن و انس ان استطعتم : ان شرطیہ ہے استطعتم ماضی جمع مذکر حاضر۔ استطاعۃ (استفعال) مصدر (ماضٰ بمعنی حال ہے) تم کرسکتے ہو، تم سے ہوسکتا ہے۔ تم میں استطاعت ہے۔ ان تنفذوا : ان مصدریہ ہے ینفذوا مضارع منصوب (بوجہ عمل ان) جمع مذکر حاضر۔ نفوذ (باب نصر) مصدر۔ تم نکل بھاگو۔ تم باہر چلے جاؤ۔ من اقطار السموت والارض۔ مضاف مضاف الیہ۔ اقطار جمع قطر کی بمعنی جانب یا طرف۔ انفذوا۔ فعل امر جمع مذکر حاضر۔ نفوذ (باب نصر) مصدر۔ (تو) نکل بھاگو۔ لاتنفذون : لا نافیہ، تنفذون : مضارع جمع مذکر حاضر، تم نہیں بھاگ سکو گے، تم نہیں نکل سکو گے۔ الا بسلطان : الا حرف استثنائ۔ سلطان : زور، قوت، حجت، برہان، سند۔ ترجمہ آیت کا یوں ہے :۔ اے گروہ جن و انس اگر تمہیں قدرت ہو کہ آسمان اور زمین کے کناروں سے نکل جاؤ۔ تو نکل جاؤ۔ سلطان کے سوا تم نکل سکتے ہی نہیں۔ ارض و سماء کے اطراف و اکناف سے نکل بھاگنے کی کئی صورتیں ہیں :۔ مثلا :۔ (1) قیامت کے روز فرشتے آسمانوں سے اتریں گے اور تمام خلائق کو گھرے میں لے لیں گے۔ جب جن و انس ان کو دیکھیں گے تو وہ گھیرے سے باہر بھاگنے کی کوشش کریں گے لیکن جدھر بھی جائیں گے اپنے آپ کو بےبس اور گھرا ہوا پائیں گے۔ (2) قیام قیامت کے وقت لوگ بازاروں میں ہوں گے کہ فرشتوں کو آتا دیکھ کر بھاگنے لگیں گے لیکن فرشتے ان کو گھیرے میں لے کر ان کا فرار ناممکن بنادیں گے۔ (3) بعض کے نزدیک یہ موت سے فرار کے وقت کا منظر ہے لوگ موت سے بھاگیں گے لیکن فرشتے ان کو گھیر لیں گے۔ (4) یا یہ کہ لوگ زمین اور آسمانوں میں نہ جاننے کے لئے کہ ان میں کیا ہے ادھر ادھر نکلنے کی کوشش کریں گے لیکن وہ سیا نہیں کرسکیں گے جن و انس کی بیچارگی اور ناکامی کی وجہ طاقت و قوت اور سند من اللہ کا نہ ہونا ہے۔ ایسا وہ طاقت ہی سے کرسکتے ہیں جو ان کے پاس ہے ہی نہیں کیونکہ اس کا منبع ذات الٰہی ہے اور جب تک اس کی طرف سے توفیق نہ ہو جن و انس کی کامیابی ناممکن ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ سلطن سے مراد سند، اجازت، حجت وبرہان ہے۔ چناچہ تاج العروس میں ہے کہ : سلطن کے معنی حجت وبرہان کے ہیں اسی معنی میں ارشاد الٰہی ہے :۔ لاتنفذون الا بسلطن : (نہیں نکل سکتے بدون سند کے) البتہ اس کی قوت اور اس کی سند اگر کسی کو حاصل ہوجائے تو وہ ان حدبندیوں سے باہر نکل سکتا ہے کما ان النبی ﷺ نفذ ببدنہ لیلۃ المعراج من السموت لسبع الی سدرۃ المنتھی۔ یعنی جس طرح نبی پاک ﷺ شب معراج میں اپنے جسم اطہر کے ساتھ ساتوں آسمانوں سے پار سدرۃ المنتہیٰ تشریف لے گئے۔ علامہ پانی پتی لکھتے ہیں :۔ بعض اہل علم کا قول ہے کہ تنبیہ، تخویف اور باوجود کامل ودرت رکھنے کے درگزر کرنا اور معاف کردینا یہ سب کچھ اللہ کی نعمت ہے اور عقلی معراج اور تمام ترقیات اور ایسے اسباب ترقیات کہ ان کے ذریعے سے لوگ آسمانوں سے بھی اوپر پہنچ جائیں۔ ان کا شمول بھی الاء اللہ میں سے ہے۔ (تفسیر مظہری)
Top