Anwar-ul-Bayan - Ar-Rahmaan : 7
وَ السَّمَآءَ رَفَعَهَا وَ وَضَعَ الْمِیْزَانَۙ
وَالسَّمَآءَ : اور آسمان رَفَعَهَا : اس نے بلند کیا اس کو وَوَضَعَ : اور قائم کردی۔ رکھ دی الْمِيْزَانَ : میزان
اور اسی نے آسمان کو بلند کیا اور ترازو قائم کی
(55:7) والسماء رفعھا : ای خلق السماء ورفعھا۔ آسمان کو پیدا کیا اور اسے بلند کیا (الی الارض) زمین کے اوپر۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ پہلے نیچے تھا پھر اسے بلند کردیا۔ بلکہ اسے پیدا ہی ایسا کیا۔ یا رفع السماء آسمان کو بلند کیا یعنی بلندیوں پر قائم کیا۔ ھا ضمیر واحد مؤنث غائب کا مرجع السماء ہے اور السماء بوجہ مفعول منصوب ہے۔ وضع واحد مذکر غائب وضع (باب فتح) مصدر اس نے قائم کیا۔ اس نے رکھا۔ المیزان۔ اسم مصدر۔ تول۔ اسم آلہ۔ ترازو۔ مجازی معنی عدل و انصاف، قانون عدل ، قواعد عدل۔ صاحب روح المعانی لکھتے ہیں :۔ ای شرع العدل وامر بہ۔ اللہ تعالیٰ نے عدل کا قانون بنایا اور اس پر عمل کرنے کا حکم فرمایا۔ رسول کریم ﷺ کا ارشاد ہے : بالعدل قامت السموت والارض زمین و آسمان عدل پر قائم ہیں ۔ یعنی اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان اور اس میں آباد ہر چیز کو اس طرح آباد کیا جیسے اس کی بقاء اور نشو و نما کے لئے مناسب تھا۔ علماہ مودودی المیزان کی تشریح کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :۔ قریب قریب تمام مفسرین نے یہاں میزان (ترازو) سے عدل مراد لیا ہے اور میزان قائم کرنے کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کائنات کے اس پورے نظام کو عدل پر قائم کیا ہے۔ یہ بےحدوحساب تارے اور سیارے جو فضا میں گھوم رہے ہیں، یہ عظیم الشان قوتیں جو اس عالم میں کام کر رہی ہیں اور یہ لاتعداد مخلوقات اور اشیاء جو اس جہان میں پائی جاتی ہیں۔ ان سب کے درمیان اگر کمال درجہ کا عدل و ازن قائم نہ کیا گیا ہوتا تو یہ کارگاہ ہستی ایک لمحہ کے لئے بھی نہ چل سکتی تھی۔ خود اس زمین پر کروڑوں برس سے ہوا اور پانی اور خشکی میں جو مخلوقات موجود ہیں ان ہی کو دیکھ لیجئے۔ ان کی زندگی اسی لئے تو برقرار ہے کہ ان کے اسباب حیات میں پورا پورا عدل اور توازن پایا جاتا ہے ورنہ ان اسباب میں ذرا سی بھی بےاعتدالی پیدا ہوجائے تو یہاں زندگی کا نام و نشان تک باقی نہ رہے۔ (تفہیم القرآن)
Top