Anwar-ul-Bayan - Al-Hadid : 16
اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ١ۙ وَ لَا یَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلُ فَطَالَ عَلَیْهِمُ الْاَمَدُ فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ١ؕ وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ
اَلَمْ يَاْنِ : کیا نہیں وقت آیا لِلَّذِيْنَ : ان لوگوں کے لیے اٰمَنُوْٓا : جو ایمان لائے ہیں اَنْ تَخْشَعَ : کہ جھک جائیں قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل لِذِكْرِ اللّٰهِ : اللہ کے ذکر کے لیے وَمَا نَزَلَ : اور جو کچھ اترا مِنَ الْحَقِّ ۙ : حق میں سے وَلَا يَكُوْنُوْا : اور نہ وہ ہوں كَالَّذِيْنَ : ان لوگوں کی طرح اُوْتُوا الْكِتٰبَ : جو دیئے گئے کتاب مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل فَطَالَ : تو لمبی ہوگئی عَلَيْهِمُ الْاَمَدُ : ان پر مدت فَقَسَتْ قُلُوْبُهُمْ ۭ : تو سخت ہوگئے ان کے دل وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ : اور بہت سے ان میں سے فٰسِقُوْنَ : نافرمان ہیں
کیا ابھی تک مومنوں کے لئے اس کا وقت نہیں آیا کہ خدا کی یاد کرنے کے وقت اور (قرآن) جو (خدائے) برحق (کی طرف) سے نازل ہوا ہے اس کے سننے کے وقت ان کے دل نرم ہوجائیں اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو (ان سے) پہلے کتابیں دی گئی تھیں پھر ان پر زمان طویل گزر گیا تو ان کے دل سخت ہوگئے اور ان میں سے اکثر نافرمان ہیں
(57:16) الم یان ہمزہ استفہامیہ لم یان مضارع نفی جحد بلم (مجزوم) واحد مذکر غائب۔ انی انی انی (باب ضرب) مصادر۔ یان اصل میں یانی تھا۔ حرف جازم لم کے آنے سے یان ہوگیا۔ کیا وقت نہیں آیا۔ انی الرحیل کوچ کا وقت آگیا۔ انی الحمیم۔ گرم پانی، اپنی آخری حد حرارت پر پہنچ گیا۔ یعنی کھولنے لگا۔ اسی لئے ان کا معنی ہے کھولتا ہوا پانی۔ ان الامر کام کا وقت آگیا ۔ ان تخشع : ان مصدریہ ہے۔ تخشع مضارع منصوب (بوجہ عمل ان) واحد مذکر غائب خشوع (باب فتح) مصدر ۔ بمعنی گڑگڑانا۔ عاجزی و فروتنی کرنا۔ عاجزی سے جھک جانا۔ کہ وہ عاجزی سے جھک جائیں۔ قلوبھم : مضاف مضاف الیہ ۔ قلوب فعل۔ تخشع کا فاعل ہے۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب الذین امنوا کی طرف راجع ہے ۔ کہ عاجزی سے جھک جائیں ان کے دل ۔ لذکر اللہ۔ ذکر اللہ سے مراد ۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر و ازکار یا قرآن مجید۔ وما نزل من الحق واؤ عاطفہ ما اسم موصول نزل من الحق صلہ ۔ الحق کے معنی ہیں مطابقت و موافقت۔ اس کا استعمال مختلف طرح ہوتا ہے اور منجملہ دیگر استعمال کے اس ذات کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ جو اپنی حکمت کے اقتضاء کی بنا پر کسی شے کی ایجاد فرمائے۔ اللہ تعالیٰ کو اسی لئے حق کہا جاتا ہے۔ ارشاد ہے :۔ وردو الی اللہ مولہم الحق : اور پھیرے جائیں گے اللہ کی طرف جو ان کا مالک حق ہے یہاں حق سے مراد اگر اللہ لیا جائے تو جملہ کا ترجمہ ہوگا :۔ اور وہ جو اللہ کی طرف سے نزال ہوا ہے یعنی قرآن۔ حق کا دوسرا استعمال :۔ وہ قول یا فعل جو اسی طرح پر واقع ہوا ہو جس پر کہ اس کا ہونا ضرورت ہے اور اسی مقدار اور اسی وقت میں ہو کر جس مقدار اور جس وقت میں اس کا ہونا ضرور اور واجب ہے۔ چناچہ قول حق اور فعل حق اسی اعتبار سے کہا جاتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے ولکن حق القول منی لاملئن جھنم : لیکن یہ بات میری طرف سے ثابت ہوگئی کہ مجھ کو دوزخ بھرنی ہے۔ اس صورت میں یہاں الحق کے معنی ہوں گے۔ سچ بات، سچ دین۔ اور ترجمہ آیت کا ہوگا :۔ اور جو اترا سچا دین۔ (شاہ وبد القادر دہلوی) ہر دو صورتوں میں ما نزل من الحق سے مراد قرآن مجید لیا جاسکتا ہے۔ اس جملہ کی علت ذکر اللہ (بمعنی قرآن مجید) پر ہے اس کو عطف احد الوصفین علی الاخر کہا جاتا ہے (بیضاوی) ۔ ھذا عطف الشی علی نفسہ مع اختلاف اللفظین (اضواء البیان) ۔ ولا یکونوا کالذین اوتوا الکتب من قبل : ولا یکونوا کا عطف تخشع پر ہے۔ لایکونوا فعل نہی جمع مذکر غائب کا صیغہ بمعنی وہ نہ ہوجائیں۔ کالذین اوتوا الکتبکاف تشبیہ کا ہے الذین اسم موصول۔ اوتوا الکتب اس کا صلہ جن کو کتاب دی گئی۔ یعنی یہودی اور عیسائی۔ من قبل : ای من قبلہم ان سے پہلے ۔ قبل پہلے۔ آگے۔ بعد کی ضد ہے۔ اضافت اس کو لازمی ہے۔ جب بغیر اضافت کے آئے گا تو ضمہ پر مبنی ہوگا۔ ولا یکونوا ۔۔ اور ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائیں جن کو ان سے پہلے کتاب دی گئی۔ فطال :بمعنی پھر۔ طال ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب طول (باب نصر) مصدر دراز ہوگیا۔ لمبا ہوگیا۔ الامد : مدت۔ زمانہ۔ زمان اور امد کے لفظ میں صرف اتنا فرق ہے کہ امد کا استعمال بااعتبار غایت یعنی کسی چیز کی مدت ختم ہونے کے لحاظ سے ہوتا ہے اور زمان کا لفظ مبدأ اور گایت دونوں کے لحاظ سے عام ہے یعنی شروع زمانہ کے بتانے کے لئے بھی اور انتہائی زمانہ بتانے کے لئے بھی۔ فطال علیہم الامد پھر ان پر طویل زمانہ گزر گیا۔ یعنی ان کے اور ان کے پیغمبروں کے درمیان۔ فقست قلوبھم :تعلیل کا ہے۔ قست ماضی واحد مؤنث غائب قسوۃ (باب نصر) مصدر۔ پس ان کے دل سخت ہوگئے القسوۃ کے معنی سنگ دل ہونے کے ہیں یہ اصل میں حجر قاس سے ہے۔ جس کے معنی سخت پتھر کے ہیں۔ تفسیر ابن کثیر میں ہے :۔ فطال الامد علیہم فطال الزمان بینھم وبین انبیاء ہم وبدلوا کتاب اللہ الذی بایدیہم واشتروا بہ ثمنا قلیلا ونبذوہ ورآء ظھورھم واقبلوا علی الآراء المختلفۃ والاقوال المؤتفکۃ وقدلدوا الرجال فی دین اللہ واتخذوا احبارھم ورھبانھم اربابا من دون اللہ فعتد ذلک قست قلوبھم فلا یقبلون موعظۃ ولاتلین قلوبھم بوعد ولا وعید۔ ان کے اور ان کے پیغمبروں کے درمیان مدت مدید گزر گئی۔ اور انہوں نے اللہ کی کتاب کو جو ان کے پاس تھی بدل ڈالا۔ اور اسے حقیر قیمت پر بیچ ڈالا۔ اور اس کے پندو نصائح کو پس پشت ڈال دیا۔ مختلف آراء اور اقوال کو اپنالیا۔ اللہ کے دین میں لوگوں کی پیروی شروع کردی۔ اللہ کو چھوڑ کر اپنے علماء اور راہبوں کو اپنا رب بنا لیا۔ اس پر ان کے دل پتھر جیسے سخت ہوگئے۔ کہ نہ موعظت قبول کرسکیں۔ اور نہ وعدہ وعید سے نرم ہو سکیں۔ وکثیر منھم فسقون : جملہ حالیہ ہے۔ اور حال یہ ہے کہ اکثر ان میں سے فاسق ہیں ۔ فاسق کا لفظ اس شخص کے متعلق استعمال ہوتا ہے جو احکام شریعت کا التزام اور اقرار کرنے کے بعد تمام یا بعض احکام کی خلاف ورزی کرے۔
Top