بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Anwar-ul-Bayan - Al-Hadid : 1
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
سَبَّحَ : تسبیح کی ہے۔ کرتی ہے لِلّٰهِ : اللہ ہی کے لیے مَا فِي السَّمٰوٰتِ : ہر اس چیز نے جو آسمانوں میں ہے وَالْاَرْضِ ۭ : اور زمین میں وَهُوَ الْعَزِيْزُ : اور وہ زبردست ہے الْحَكِيْمُ : حکمت والا ہے
جو مخلوق آسمانوں اور زمین میں ہے خدا کی تسبیح کرتی ہے اور وہ غالب (اور) حکمت والا ہے
(57:1) سبح للہ ما فی السموت والارض : سبح ماضی واحد مذکر غائب تسبیح (تفعیل) مصدر۔ اس نے پاکی بیان کی۔ اس نے تسبیح کی۔ علامہ ثناء اللہ پانی پتی (رح) اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :۔ اس جگہ (یعنی سورة الحدید) اور سورة حشر اور سورة صف میں سبح بصیغہ ماضٰ اور سورة جمعہ میں اور سورة تغابن میں یسبح بصیغہ مضارع ذکر کرنے سے اس طرف اشارہ ہے کہ مخلوق کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی پاکی کا اظہار ہمہ وقت ہے۔ (ماضی و مضارع کے صیغوں میں ماضٰ ، حال، مستقبل تمام زمانوں کا ذکر آگیا ہے) حالات اور اوقات کی تبدیلی سے اس میں اختلاف نہیں ہوتا۔ سورة بنی اسرائیل میں بصورت مصدر ذکر کرنا اس ہمہ وقت تسبیح پر واضح طور پر دلالت کرتا ہے (کیونکہ مصدر کی کسی زمانے کے ساتھ خصوصیت نہیں ہوتی۔ مصدر سے حدث استمراری معلوم ہوتا ہے۔ فعل یسبح خود ہی متعدی ہے کیونکہ تسبیح کا لغوی معنی ہے کسی چیز کو برائی سے دور کرنا اور پاک کرنا ہے۔ سبح کا معنی ہے دور ہوگیا۔ چلا گیا۔ کبھی اس کے مفعول پر لام بھی آجاتا ہے جیسے نصحۃ اور نصحت لہ دونوں طرح سے مستعمل ہے۔ مفعول پر اس جگہ لام لانے سے اس طرف بھی اشارہ ہوسکتا ہے کہ مخلوق کی تسبیح خالص اللہ کے لئے ہے۔ (للہ) ۔ مافی السموت والارض یعنی ساری مخلوق عقل والی ہو یا محروم از عقل (گویا اس جگہ ما کا لفظ ذوی العقول کو بھی شامل ہے بعض نے کہا ہے کہ ما سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے تسبیح کا صدور ہوسکتا ہو۔ اور بعض اہل علم کے نزدیک جمادات وغیرہ (جو تسبیح کلامی و قولی سے فطرتاً محروم ہیں) کی تسبیح حالی مراد ہے۔ یعنی یہ ساری چیزیں دلالت کر رہی ہیں کہ اللہ تعالیٰ پر برائی (اور نقص و عجز) سے پاک ہے۔ صحیح بات یہ ہے کہ (جماد ہو یا نامی باشعور ہو یا بےشعور ہو ذی عقل ہو یا محروم از عقل تمام موجودات میں اس کی نوع کے مناسب زندگی اور علم موجود ہے جیسا کہ ہم نے سورة بقرۃ کی آیت وان منھا لما یھبط من خشیۃ اللہ (2:74) کی تفسیر میں وضاحت کردی ہے پس ہر چیز کی تسبیح مقامی ہے گوہم اس کلام کو نہ سمجھیں۔ اللہ تعالیٰ فرمایا ہے :۔ وان من شیء الا یسبح بحمدہ ولکن لا تفقھون تسبیحھم (17:44) وھو العزیز الحکیم : جملہ حالیہ ہے اور وہ زبردست اور حکمت والا ہے۔
Top