Anwar-ul-Bayan - Al-Hashr : 10
وَ الَّذِیْنَ جَآءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَ لِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَ لَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَاۤ اِنَّكَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۠   ۧ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ جَآءُوْ : وہ آئے مِنْۢ بَعْدِهِمْ : ان کے بعد يَقُوْلُوْنَ : وہ کہتے ہیں رَبَّنَا : اے ہمارے رب اغْفِرْ لَنَا : ہمیں بخشدے وَلِاِخْوَانِنَا : اور ہمارے بھائیوں کو الَّذِيْنَ : وہ جنہوں نے سَبَقُوْنَا : ہم سے سبقت کی بِالْاِيْمَانِ : ایمان میں وَلَا تَجْعَلْ : اور نہ ہونے دے فِيْ قُلُوْبِنَا : ہمارے دلوں میں غِلًّا : کوئی کینہ لِّلَّذِيْنَ : ان لوگوں کیلئے جو اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائے رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اِنَّكَ : بیشک تو رَءُوْفٌ : شفقت کرنیوالا رَّحِيْمٌ : رحم کرنے والا
اور (ان کے لئے بھی) جو ان (مہاجرین) کے بعد آئے (اور) دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے پروردگار ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں گناہ معاف فرما۔ اور مومنوں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (وحسد) نہ پیدا ہونے دے۔ اے ہمارے پروردگار تو بڑا شفقت کرنے والا مہربان ہے۔
(59:10) جاء وا : ماضی جمع مذکر غائب وہ آئے۔ مجیء (باب ضرب) مصدر۔ بعدھممضاف مضاف الیہ۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب کا مرجع مہاجرین و انصار ہیں۔ یعنی مہاجرین و انصار کے بعد۔ ان سے وہ صحابہ کرام مراد ہیں جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہوئے اور وہ تمام مومن بھی مراد ہیں جو صحابہ کے بعد قیامت تک آنے والے ہیں۔ (تفسیر قرطبی) سبقونا : سبقوا ماضی جمع مذکر غائب۔ سبق (باب ضرب) مصدر۔ بمعنی سبقت لے جانا۔ آگے نکل گئے ۔ نا ضمیر مفعول جمع متکلم وہ ہم سے آگے نکل گئے۔ وہ ہم سے سبقت لے گئے۔ غلا : کینہ۔ حسد، بغض۔ غل یغل (باب ضرب) کا مصدر ہے۔ کسی کے متعلق دل میں کینہ رکھنا۔ غلل مادہ۔ اس مادہ سے باب افعال سے اغلال بمعنی خیانت کے ساتھ متصف ہونا ہے۔ قرآن مجید میں ہے :۔ وما کان لبنی ان یغل (3:161) اور کبھی نہیں ہوسکتا کہ پیغمبر (خدا) خیانت کریں۔ الغلل۔ کے اصل معنیٰ کسی چیز کو اوپر اوڑھنے یا اس کے درمیان میں چلے جانے کے ہیں۔ اسی سے غلل اس پانی کو کہا جاتا ہے جو درختوں کے درمیان بہہ رہا ہو۔ لہٰذا غل (طوق) خاص کر اس چیز کو کہا جاتا ہے جس سے کسی کے اعضاء کو جکڑ کر اس کے وسط میں باندھ دیا جاتا ہے۔ اس کی جمع اغلال آتی ہے۔ اور غل فلان کے معنی ہی اسے طوق سے باندھ دیا گیا۔ جیسے قرآن مجید میں ہے :۔ خذوہ فغلوہ (69:31) اسے پکڑو اور طوق پہنا دو ۔ للذین امنوا۔ ایمان والوں کے لئے۔ ان کے متعلق جو ایمان والے ہیں ۔ مراد اس سے وہ مہاجرین و انصار ہیں جو بعد کے آنے والوں سے پہلے ایمان لائے۔ رء وف رافۃ سے بروزن فعول صفت مشبہ کا صیغہ ہے مہربان۔ شفقت کرنے والا۔ والذین جاء وا من بعدھم ۔۔ اس کا عطف للفقراء المھاجرین پر ہے۔ اس آیت سے بتادیا کہ اموال فئی میں مہاجرین و انصار کے علاوہ یہ لوگ بھی حقدار ہیں۔ یہ وہ مسلمان ہیں جو قیامت تک آئیں گے۔
Top