Anwar-ul-Bayan - An-Nisaa : 40
مَا قَطَعْتُمْ مِّنْ لِّیْنَةٍ اَوْ تَرَكْتُمُوْهَا قَآئِمَةً عَلٰۤى اُصُوْلِهَا فَبِاِذْنِ اللّٰهِ وَ لِیُخْزِیَ الْفٰسِقِیْنَ
مَا قَطَعْتُمْ : جو تم نے کاٹ ڈالے مِّنْ : سے لِّيْنَةٍ : درخت کے تنے اَوْ : یا تَرَكْتُمُوْهَا : تم نے اس کو چھوڑدیا قَآئِمَةً : کھڑا عَلٰٓي : پر اُصُوْلِهَا : اس کی جڑوں فَبِاِذْنِ اللّٰهِ : تو اللہ کے حکم سے وَلِيُخْزِيَ : اور تاکہ وہ رسوا کرے الْفٰسِقِيْنَ : نافرمانوں کو
(مومنو) کھجور کے جو درخت تم نے کاٹ ڈالے یا انکو اپنی جڑوں پر کھڑا رہنے دیا سو خدا کے حکم سے تھا اور مقصود یہ تھا کہ نافرمانوں کو رسوا کرے۔
(59:5) ما قطعتم من لینۃ : ما شرطیہ قطعتم۔ ماضٰ جمع مذکر حاضر قطع (باب فتح) مصدر۔ تم نے کاٹا۔ من لینۃ میں من بیانیہ ہے لینۃ لون سے مشتق ہے اس کی جمع الوان آتی ہے۔ بعض کے نزدیک لین سے مشتق ہے۔ علماء نے لینۃ کے مختلف معانی بیان کئے ہیں :۔ (1) بعض نے کہا کہ ہر قسم کے کھجور کے درختوں کو لینہ کہتے ہیں ۔ اس میں عجوہ کے درخت شامل نہیں ہیں۔ یہ قول عکرمہ اور قتادہ کا ہے۔ زاذان کی روایت میں حضرت ابن عباس کا بھی یہی قول آیا ہے۔ (2) زہری نے کہا کہ :۔ عجوہ اور برنیہ کے علاوہ دوسرے تمام اقسام کے کھجور کے درختوں کو الوان کہا جاتا ہے۔ (3) مجاہد اور عطیہ نے کہا کہ :۔ بغیر تحقیق کے ہر کھجور کے درخت کو لینہ کہا جاتا ہے۔ (4) سفیان نے کہا کہ : کھجور کے اعلیٰ درختوں کو لینہ کہتے ہیں۔ (5) مقاتل نے کہا کہ :۔ لینہ ایک قسم کا کھجور کا درخت ہے جس کے پھل کو لون کہا جاتا ہے یہ رنگ میں بہت زرد (اور اتنا شفاف) ہوتا ہے کہ اندر کی گٹھلی باہر سے دکھائی دیتی ہے۔ ما قطعتم من لینۃ جملہ شرط ہے۔ او ترکتموھا قائمۃ علی اصولہا۔ جملہ ہذا کا عطف بھی جملہ سابقہ پر ہے اور یہ جملہ بھی شرطیہ ہے۔ ترکتموھا میں ترکتم ماضی کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے ۔ ترل (باب نصر) مصدر سے واؤ اشباع کا ہے۔ ھا ضمیر مفعول واحد مؤنث غائب لینۃ کے لئے ہے۔ قائمۃ : بوجہ تمیز منصوب ہے۔ اصولہا مضاف مضاف الیہ، ان کی جڑیں۔ ترجمہ : یا ان کو ان کی جڑوں پر قائم رہنے دیا۔ فباذن اللہ یہ جملہ جواب شرط ہے۔ ولیجزی الفسقین۔ اس کی دو صورتیں ہیں :۔ (1) واؤ کا عطف عبارت مقدرہ پر ہے :۔ ای لیعز المؤمنین ولیجزی الفسقین (یہ تمہارا اللہ کے اذن پر کھجوروں کے درختوں کو کاٹنا یا ان کو ان کی جڑوں پر قائم رہنے دینا اس لئے ہے کہ وہ مومنوں کی عزت افزائی کرے اور نافرمانوں کو رسوا کرے) (2) اس جملہ کا عطف جملہ سابقہ پر ہے۔ یعنی تمارا درختوں کو کاٹنا یا ان کو کھڑا رہنے دینا اللہ کے حکم سے تھا۔ اس کا مقصد نافرمانوں کو رسوا کرنا تھا۔ لیخزی میں لام تعلیل کا ہے۔ مضارع منصوب بوجہ جواب شرط۔ اخزاء (افعال) مصدر۔ رسوا کرنا۔ ذلیل کرنا۔ (تاکہ وہ رسوا کر دے) ۔
Top