Anwar-ul-Bayan - Al-Hashr : 6
وَ مَاۤ اَفَآءَ اللّٰهُ عَلٰى رَسُوْلِهٖ مِنْهُمْ فَمَاۤ اَوْجَفْتُمْ عَلَیْهِ مِنْ خَیْلٍ وَّ لَا رِكَابٍ وَّ لٰكِنَّ اللّٰهَ یُسَلِّطُ رُسُلَهٗ عَلٰى مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ
وَمَآ اَفَآءَ اللّٰهُ : اور جو دلوایا اللہ نے عَلٰي رَسُوْلِهٖ : اپنے رسولوں کو مِنْهُمْ : ان سے فَمَآ : تو نہ اَوْجَفْتُمْ : تم نے دوڑائے تھے عَلَيْهِ : ان پر مِنْ خَيْلٍ : گھوڑے وَّلَا رِكَابٍ : اور نہ اونٹ وَّلٰكِنَّ اللّٰهَ : اور لیکن (بلکہ) اللہ يُسَلِّطُ : مسلط فرماتا ہے رُسُلَهٗ : اپنے رسولوں کو عَلٰي : پر مَنْ يَّشَآءُ ۭ : جس پر وہ چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ : ہر شے پر قَدِيْرٌ : قدرت رکھتا ہے
اور جو (مال) خدا نے اپنے بیغمبر کو ان لوگوں سے (بغیر لڑائی بھڑائی کے) دلوایا ہے اس میں تمہارا کچھ حق نہیں کیونکہ اس کے لئے نہ تم نے گھوڑے دوڑائے نہ اونٹ لیکن خدا اپنے پیغمبروں کو جن پر چاہتا ہے مسلط کردیتا ہے اور خدا ہر چیز پر قادر ہے
(59:6) وما افاء اللہ علی رسولہ منہم : واؤ عاطفہ۔ ما موصولہ، مبتداء ۔ افاء اللہ علی رسولہ منہم صلہ۔ اس کے بعد اگلا جملہ مبتدا کی خبر ہے۔ افاء ماضی واحد مذکر غائب۔ افاء ۃ (افعال) مصدر۔ اس نے لوٹای۔ اس نے ہاتھ لگوایا۔ اس نے فئی میں عطا کیا۔ی ء مادہ۔ فاء یفیی (باب ضرب) فیئی لوٹنا (کسی چیز کی طرف) (سایہ کا) ہٹ جانا۔ فیئی کے اصول معنی کسی اچھی حالت کی طرف لوٹنا کے ہیں۔ جیسے قرآن مجید میں ہے حتی تفیئی الی امر اللہ فان فاءت (49:9) یہاں تک کہ وہ خدا کے حکم کی طرف رجوع لائے پس جب وہ رجوع لائے : جو مال غنیمت بلا مشقت حاصل ہو وہ بھی فئے کہلاتا ہے۔ علامہ ناصر بن عبد السید المطرزی المغرب میں رقمطراز ہیں :۔ غنیمت وہ مال ہے جو بحالت جنگ کفار سے بروز شمشیر حاصل کیا جائے اس کا پانچواں حصہ نکال کر بقیہ چار حصے غانمین یعنی مجاہدین کا حق ہے۔ اور فی وہ مال ہے جو کفار سے جنگ کے بعد حاصل ہو جیسے خراج۔ یہ عام مسلمانوں کا حق ہے۔ ما افاء سے مراد بنو نصیر کا مال و اسباب مراد ہے جو اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ کوفے میں دلوایا۔ یہ مال خالص آپ کی ملکیت تھا۔ اور فے میں اس طرح کی ملکیت آپ ہی کی خصوصیت تھی۔ الفئۃ اسی مادہ سے مشتق ہے ۔ الفئۃ اس جماعت کو کہتے ہیں جس کے افراد تعاون اور تعاضد کے لئے ایک دوسرے کی طرف لوٹ کر آئیں۔ منھم میں ھم ضمیر جمع مذکر غائب بنو نصیر کے لئے ہے۔ منھم سے مراد من اموالہم ہے۔ مطلب آیت کا یہ ہے کہ جو مال بنو نضیر کے اموال میں سے اللہ نے اپنے رسول کوفے میں عطا کیا۔ صاحب تفسیر ضیاء القرآن رقمطراز ہیں :۔ افاء کا لفظ بڑا معنی خیز ہے افاء کا معنی ہے کسی چیز کو لوٹا دینا۔ واپس کردینا۔ سایہ کو بھی فیئی کہتے ہیں کیونکہ یہ بھی پلٹ کر واپس آتا ہے۔ یہاں اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ ہر چیز جس کو اللہ نے پیدا کردیا ہے اس کے حق دار اس کے فرماں بردار بندے ہیں اصل میں ہر چیز انہی کی ملکیت ہے نافرمان لوگ جو بعض چیزوں پر قبضہ جما لیتے ہیں۔ یہ ان کا قبضہ مخالفانہ ہے اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے ان چیزوں کو غاصب لوگوں سے لے کر ان کے اصل حقداروں تک پہنچا دیتا ہے۔ یہاں بھی بنی نضیر کے جو املاک رسول کریم ﷺ کو عطا فرمائے گئے ہیں۔ وہ حقیقتاً یہودیوں کے نہ تھے۔ انہوں نے انہیں غصب کیا ہوا تھا۔ اور اللہ تعالیٰ نے ان کے غاضباطہ قبضہ کو ختم کرکے اپنے رسول کریم کو واپس دیدئیے ہیں جو ان کے حقیقی حقدار تھے۔ علامہ آلوسی صاحب تفسیر روح المعانی لکھتے ہیں :۔ فیہ اشعار بانھا کانت حویۃ بان تکون لہ ﷺ وانما وقعت فی ایدیم بغیر حق فارجعھا اللہ تعالیٰ الی مستحقھا۔ (روح المعانی) ۔ علامہ ابوبکر عربی نے احکام القرآن میں بھی اسی حقیقت کو بیان کیا ہے اور افاء کا کلمہ یہاں استعمال کرنے کی یہی حکمت ذکر کی ہے فما اوجفتم علیہ من خیل ولارکاب یہ جملہ تم نے نہ گھوڑے دوڑائے تھے۔ اور اونٹ ما نافیہ۔ اوجفتم ماضی کا صیغہ جمع مذکر حاضر ہے۔ ایجاب (افعال) مصدر ۔ وجف مادہ۔ سواری کو دوڑانا اور تیز کرنا۔ علی کے صلہ کے ساتھ۔ کسی کے خلاف سواری کو تیز کرکے حملہ کرنا۔ من خیل یعنی گھوڑے۔ اصل میں خیل گھوڑوں کا نام ہے مجازا سواروں کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے ولارکاب اور نہ ہی اونٹ یا اونٹوں پر سوار ہوکر۔ ولکن اللہ یسلط رسلہ علی من یشائ۔ لکن حرف عطف ہے۔ کلام سابق سے پیدا شدہ وہم کو دور کرنے کے لئے بھی آتا ہے لیکن اس صورت میں یہ واؤ عاطفہ کے ساتھ آتا ہے اور حرف عطف نہیں بلکہ حرف استدراک کا فائدہ دیتا ہے یعنی اس وہم کو دور کرنے کے لئے جو کلام سابق سے پیدا ہوا ہو۔ اپنے اسم کو نصب دیتا ہے۔ لکن (نون کے سکون کے ساتھ) بھی حرف استدراک ہے لیکن یہ اسم پر عمل نہیں کرنا۔ لکن کی مثال : وما کفر سلیمن ولکن الشیاطین کفروا (2:102) اور (حضرت) سلیمان (علیہ السلام) نے مطلق کفر کی بات نہیں کہ بلکہ شیطان ہی کفر کرتے تھے۔ اور لکن کی مثال :۔ لکن الظلمون الیوم فی ضلل مبین (19:38) مگر ظالم آج صریح گمراہی میں ہیں۔ یسلط مضارع واحد مذکر غائب تسلیط (تفعیل) مصدر۔ وہ مسلط کرتا ہے۔ وہ قابو یافتہ کردیتا ہے۔ سوال : پیدا ہوتا ہے کہ بنی نضیر کے مال کو مال فیئے کہنا اور یہ فرمانا کہ اس پر تمہارے گھوڑے اور اونٹ نہیں دوڑے صحیح نہیں۔ اس لئے کہ بنی نضیر کا کئی روز تک محاصرہ رہا لوگ مرے کھپے بھی۔ آخر وہ جلاوطنی پر راضی ہوگئے تھے۔ لہٰذا اس مال کو غنیمت کہنا چاہیے۔ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ :۔ یہ بنی نضیر مدینے سے صرف دو میل کے فاصلہ پر آبار تھے۔ ان کے خلاف کچھ زیادہ سامان سفر اور تیاری کی ضرورت نہ ہوئی۔ پاپیادہ جاکر محاصرہ کرلیا گیا۔ صرف نبی کریم ﷺ اونٹ پر سوار تھے۔ یعنی جس طرح جنگوں میں محنتیں اور تکلیفیں اٹھا کر فتح ہوتی ہے اس میں اس قدر تکلیف اٹھانی نہ پڑی گویا کہ مال مفت ہاتھ آگیا اس لئے اس کو مال فے کہا گیا۔ (تفسیر مظہری)
Top