Anwar-ul-Bayan - Al-Qalam : 20
فَاَصْبَحَتْ كَالصَّرِیْمِۙ
فَاَصْبَحَتْ : تو ہوگیا وہ باغ كَالصَّرِيْمِ : جڑکٹا۔ مانند جڑ کئے کے
تو وہ ایسا ہوگیا جسے کٹی ہوئی کھیتی
(68:20) فاصبحت :نتیجہ کی ہے اصبحت ماضی کا صیغہ واحد مؤنث غائب ۔ اصباح (افعال) مصدر ۔ وہ ہوگئی۔ مؤنث کا صیغہ الجنۃ کے لئے آیا ہے۔ یعنی (باغ) ہوگیا ۔ اصبحت ای صارت۔ کالصریم : کاف تشبیہ کا۔ الصریم کٹا ہوا۔ ٹوٹا ہوا۔ صرم سے جس کے معنی کاٹنے کے ہیں۔ بروزن فعیل بمعنی مفعول یعنی مصروم ہے۔ اصل معنی تو صریم کے یہی ہیں ۔ کٹا ہوا۔ ٹوٹا ہوا۔ جدا کیا ہوا۔ چونکہ صبح رات سے کٹی ہوئی ہے اور رات صبح سے کٹی ہوئی ہوتی ہے۔ اس لئے کبھی صریم کا استعمال صبح کے معنی میں ہوتا ہے اور کبھی رات کے معنی میں۔ اسی طرح اس ذرہ ریگ کو صریم کہا جاتا ہے جو تودہ ریگ سے جدا ہوگیا ہو۔ چناچہ الصریم کی تفسیر میں یہ سارے قول بیان کئے گئے ہیں۔ کہ باغ سوکھ کر ایسا سفید ہوگیا جیسے کہ دن ہوتا ہے یا جل کر اتنا سیاہ ہوگیا جیسی کہ رات ہوتی ہے۔ یا اس طرح ٹوٹ ٹوٹ کے ذرہ ذرہ ہوگیا کہ جس طرح ذرہ ہائے ریگ تودہ ریگ سے اذ کر منتشر ہوجاتے ہیں۔
Top