Anwar-ul-Bayan - Al-Qalam : 43
خَاشِعَةً اَبْصَارُهُمْ تَرْهَقُهُمْ ذِلَّةٌ١ؕ وَ قَدْ كَانُوْا یُدْعَوْنَ اِلَى السُّجُوْدِ وَ هُمْ سٰلِمُوْنَ
خَاشِعَةً : نیچی ہوں گی اَبْصَارُهُمْ : ان کی نگاہیں تَرْهَقُهُمْ : چھا رہی ہوگی ان پر ذِلَّةٌ : ذلت وَقَدْ كَانُوْا : اور تحقیق تھے وہ يُدْعَوْنَ : بلائے جاتے اِلَى السُّجُوْدِ : سجدوں کی طرف وَهُمْ سٰلِمُوْنَ : اور وہ صحیح سلامت تھے
ان کی آنکھیں جھکی ہوئی ہوں گی اور ان پر ذلت چھا رہی ہوگی۔ حالانکہ (اس وقت) سجدے کے لئے بلائے جاتے تھے جب کہ وہ صحیح سالم تھے
(68:43) خاشعۃ ابسارھم : جملہ ضمیر یدعون سے حال ہے۔ خاشعۃ ذلیل ہونے والی خوار۔ دبی جانے والی۔ خشوع (باب سمع) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مؤنث۔ ابصارھم۔ مضاف مضاف الیہ۔ اب کی آنکھیں۔ یعنی شرم و ذلت کی وجہ سے ان کی آنکھیں جھکی جا رہی ہوں گی۔ ترھقھم ذلۃ : ترھق مضارع کا صیغہ واحد مؤنث غائب : رھق (باب سمع) مصدر۔ بمعنی کسی چیز کا کسی چیز پر زبردستی چھا جانا اور اس کو پالینا۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب۔ ان پر ذلت چھا رہی ہوگی۔ جملہ ما سبق کی طرح یہ جملہ بھی حالیہ ہے۔ وقد کانوا یدعون الی السجود وہم سالمون : کافروں اور منافقوں کے متعلق ذکر چلا آرہا ہے۔ قیامت کے روز جب شدت کرب کے ماحول میں سب کو سجدہ کیلئے کہا جائے گا تو جو لوگ خلوص دل سے اللہ کے حضور دنیا میں سجدہ ریزی کرتے رہے تھے ۔ وہ فورا سجدہ میں چلے جائیں گے۔ لیکن کفار اور منافقین کی کمریں تختہ بن جائیں گی اور وہ سجدہ تمہیں کرسکیں گے۔ یہاں (وقد کانوا یدعون ۔۔ الخ میں) یہ بتایا گیا ہے کہ یہ لوگ دنیا میں بحالت خیر و عافیت جب بھی سجدہ کے لئے بلائے جاتے تھے (یہ انکار کردیتے تھے یا اگر سجدہ کرتے تھے تو دکھاوے کی خاطر یا طوعا و کرہا) ۔ وقد کانوا یدعون الی السجود ای فی الدنیا وھم سالمون معافون فی ابدانھم ولا یسجدون تکبیرا وکفرا باللہ ربھم وبشرعہ (السیر التفاسیر) یعنی دنیا میں جب کہ وہ جسمانی طور پر بخیر و عافیر تھے سجدوں کے لئے بلائے جاتے تھے تو تکبر کی بنا پر یا اپنے پروردگار سے تکفیر کی بنا پر انکار کردیتے تھے۔ السجود بمعنی نماز بھی ہوسکتا ہے۔ جیسا کہ ابھی اوپر گزرا۔ کانوا یدعون ماضی استمراری مجہول جمع مذکر غائب کا صیغہ دعوۃ (باب نصر) مصدر سے بلائے جایا کرتے تھے۔ بلائے جاتے تھے ۔ وھم سالمون : جملہ حال ہے کانوا یدعون کی ضمیر سے۔
Top