Anwar-ul-Bayan - Al-Qalam : 49
لَوْ لَاۤ اَنْ تَدٰرَكَهٗ نِعْمَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ لَنُبِذَ بِالْعَرَآءِ وَ هُوَ مَذْمُوْمٌ
لَوْلَآ : اگر نہ ہوتی یہ بات اَنْ تَدٰرَكَهٗ : کہ پالیا اس کو نِعْمَةٌ : ایک نعمت نے مِّنْ رَّبِّهٖ : اس کے رب کی طرف سے لَنُبِذَ : البتہ پھینک دیا جاتا بِالْعَرَآءِ : چٹیل میدان میں وَهُوَ : اور وہ مَذْمُوْمٌ : مذموم ہوتا
اگر تمہارے پروردگار کی مہربانی انکی آوری نہ کرتی تو وہ چٹیل میدان میں ڈال دیے جاتے اور ان کا حال ابتر ہوجاتا
(68:49) لولا۔ امتناعیہ ہے بمعنی اگر نہ ہوتا۔ لو شرطیہ اور لا نافیہ سے مرکب ہے۔ نیز ملاحظہ ہو 2:118 و 11-12 ۔ لولا ان تدار کہ نعمۃ کے متعلق صاحب تفسیر مظہری رقمطراز ہیں : لولا امتناعیہ ہے اور تدارک ماضی کا صیغہ ادراک کا ہم معنی ہے نعمۃ اس کا فاعل ہے اور نعمۃ اگرچہ مؤنث ہے۔ اور تدارک مذکر ہے مگر فعل اور فاعل میں ہ ضمیر کی وجہ سے فصل ہوگیا ہے اس لئے اس فعل کو مذکر لایا گیا ہے۔ یا تدارک فعل مضارع منصوب ہے، اصل میں تتدارک تھا۔ تفاعل کی تاء کو حذف کردیا گیا۔ اس وقت حال ماضی حکایت ہوگئی اور ان کی وجہ سے مضارع بمعنی مصدر ہوجائے گا۔ اول صورت میں ترجمہ ہوگا :۔ اگر نہ پہنچ گئی ہوتی اس کو رب کی طرف سے نعمت۔ اور دوسری صورت میں ترجمہ یوں ہوگا :۔ اگر نہ ہوتا نعمت رب کا پہنچنا۔ تدار کہ : تدارک ماضی واحد مذکر غائب تدارک (تفاعل) مصدر (بمعنی ادراک) جس کے معنی (تدارک کے) پانے اور ایک دوسرے تک پہنچنے کے ہیں۔ ہ ضمیر مفعول واحد مذکر غائب اس نے اس کو پالیا۔ وہ اس تک پہنچ گیا۔ تدارک کا استعمال زیادہ تر فریاد رسی اور نعمت کے پہنچنے کے متعلق ہوتا ہے۔ نعمۃ بمعنی رحمت :۔ من ربہ صفت رحمت ہے یعنی اگر اللہ کی طرف سے اس پر رحمت نہ ہوتی اور توفیق توبہ نہ ملتی اور توبہ قبول نہ ہوجاتی تو ۔۔ تفسیر مظہری۔ جملہ لولا ۔۔ من ربہ شرط ہے۔ لنبذ بالعراء جملہ جواب شرط ہے نبذ فعل ماضی مجہول واحد مذکر غائب نبذ (باب ضرب) مصدر ہے بمعنی پھینکنا۔ وہ ضرور پھینک دیا جاتا۔ العراء چٹیل میدان۔ جس میں نہ گھاس ہو نہ درخت ہو نہ عمارتیں۔ ہموار میدان جس میں کوئی اوٹ نہ ہو۔ وھو مذموم جملہ حالیہ ہے ۔ اور اس حال میں وہ مذموم ہوتا (یعنی اس کی مذمت کی جاتی)
Top