Anwar-ul-Bayan - Al-A'raaf : 50
وَ نَادٰۤى اَصْحٰبُ النَّارِ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ اَنْ اَفِیْضُوْا عَلَیْنَا مِنَ الْمَآءِ اَوْ مِمَّا رَزَقَكُمُ اللّٰهُ١ؕ قَالُوْۤا اِنَّ اللّٰهَ حَرَّمَهُمَا عَلَى الْكٰفِرِیْنَۙ
وَنَادٰٓي : اور پکاریں گے اَصْحٰبُ النَّارِ : دوزخ والے اَصْحٰبَ : والے الْجَنَّةِ : جنت اَنْ : کہ اَفِيْضُوْا : بہاؤ (پہنچاؤ) عَلَيْنَا : ہم پر مِنَ : سے الْمَآءِ : پانی اَوْ : یا مِمَّا : اس سے جو رَزَقَكُمُ : تمہیں دیا اللّٰهُ : اللہ قَالُوْٓا : وہ کہیں گے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ حَرَّمَهُمَا : اسے حرام کردیا عَلَي : پر الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع)
اور دوزخی بہشتیوں سے گڑگڑا کر کہیں گے کہ کسی قدر ہم پر پانی بہاؤ یا جو رزق خدا نے تمہیں عنایت فرمایا ہے ان میں سے کچھ ہمیں بھی عطا کرو وہ جواب دیں گے کہ خدا نے بہشت کا پانی اور رزق کافروں پر حرام کردیا ہے
(7:50) افیضوا علینا من المائ۔ افیضوا۔ تم بہاؤ۔ امر کا صیغہ جمع مذکر حاضر۔ افاضۃ سے۔ افاض المائ۔ کسی جگہ سے پانی کا اچھل کر بہ نکلنا۔ آنسؤں کے بہنے کے لئے بھی آتا ہے جیسے فرمایا تری اعینھم تفیض من الدمع (5:83) تم دیکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوتے ہیں۔ قرآن میں آیا ہے ثم افیضوا من حیث افاض الناس (2:199) پھر جہاں سے اور لوگ واپس ہوں وہیں سے تم بھی واپس ہو۔ یہاں افاضۃ کے معنی مجمع کثیر کے یکبار گی لوٹنے کے ہیں۔ اور یہ فیضان الماء (یعنی پانی کا زور سے بہ نکلنا) کے ساتھ تشبیہ سے کر بولا جاتا ہے۔
Top