Anwar-ul-Bayan - Nooh : 17
وَ اللّٰهُ اَنْۢبَتَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ نَبَاتًاۙ
وَاللّٰهُ : اور اللہ نے اَنْۢبَتَكُمْ : اگایا تم کو مِّنَ الْاَرْضِ : زمین سے نَبَاتًا : اگانا
اور خدا ہی نے تم کو زمین سے پیدا کیا ہے
(71:17) واللہ انبتکم من الارض نباتا : انبت ماضی کا صیغہ واحد مذکر غائب۔ انبات (افعال) مصدر۔ بمعنی اگانا۔ کم ضمیر مفعول جمع مذکر حاضر۔ نباتا مفعول مطلق۔ اسم منصوب ہے۔ یہاں انبتکم (باب افعال) کی رعایت سے موضع مصدر میں لایا گیا ہے ای بمعنی انباتا۔ (الخازن) ترجمہ ہوگا :۔ اور اللہ نے تم کو زمین سے اگایا۔ فائدہ (1): اگانے سے مراد سے پیدا کرنا۔ روئیدگی کا لفظ پیدائش کے لفظ سے زیادہ حدوث (کسی ایسی چیز کا وجود میں آنا جو پہلے نہ ہو) کے مفہوم کو ظاہر کر رہا ہے اس لئے انشاکم کی بجائے انبتکم فرمایا ہے ۔ (تفسیر مظہری) فائدہ (2): انبات من الرض (زمین سے اگایا جانا) دو طرح سے ہے :۔ (1) اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو مٹی سے پیدا کیا لہٰذا آپ کی نسل بھی ایک طرح سے مٹی ہی سے پیدا کی گئی۔ (2) انسان نطفہ منی سے پیدا ہوتا ہے اور منی زمین کی غذاؤں سے بنتی ہے اور وہ غزائیں زمین سے اگتی ہیں۔ لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ انسان کو خاک سے اگایا گیا (تفسیر حقانی وغیرہ) فائدہ (3): ” اللہ نے تم کو اگایا “ میں ضمیر پر اکتفاء کرنے کے بجائے (لفظ اللہ) اسم ظاہر پر فرمایا کیونکہ محبوب کا نام لذت آفریں ہوتا ہے (تفسیر مظہری) ۔
Top