Anwar-ul-Bayan - Nooh : 25
مِمَّا خَطِیْٓئٰتِهِمْ اُغْرِقُوْا فَاُدْخِلُوْا نَارًا١ۙ۬ فَلَمْ یَجِدُوْا لَهُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ اَنْصَارًا
مِمَّا : مگر گمراہی میں خَطِيْٓئٰتِهِمْ : خطائیں تھیں ان کی اُغْرِقُوْا : وہ غرق کیے گئے فَاُدْخِلُوْا : پھر فورا داخل کیے گئے نَارًا : آگ میں فَلَمْ : پھر نہ يَجِدُوْا : انہوں نے پایا لَهُمْ : اپنے لیے مِّنْ دُوْنِ : سوا اللّٰهِ : اللہ کے اَنْصَارًا : کوئی مددگار
(آخر) وہ اپنے گناہوں کے سبب ہی غرقاب کردیے گئے پھر آگ میں ڈال دیئے گئے تو انہوں نے خدا کے سوا کسی کو اپنا مددگار نہ پایا
(71:25) مما خطیئتھم اغرقوا : مما ، من سببیہ اور ما زائدہ سے۔ مرکب ہے ما زائدہ تاکید کے لئے لایا گیا ہے خطیئات مضاف ہم مضاف الیہ ۔ جمع ہے خطیئۃ کی بمعنی گناہ، تقصیر، خطاء ھم ضمیر جمع مذکر غائب ان کی خطائیں۔ ان کی تقصیریں۔ ان کے گناہ اغرقوا : ماضی مجہول جمع مذکر غائب۔ اغرقوا۔ اغراق (افعال) مصدر سے وہ غرق کئے گئے وہ ڈبو دئیے گئے۔ بوجہ اپنی خطاؤں کے ڈبو دئیے گئے وہ۔ فادخلوا ناراعاطفہ ہے۔ تفسیر ضیاء القرآن میں ہے :۔ جہاں ترتیب اور تعقیب بتانا مقصود ہو یعنی یہ کام پہلے کام کے بععد ہوا اور اس کے بعد فورا ہوا۔ تو یہاستعمال ہوتی ہے۔ یعنی ان کے غرق ہونے کے بعد۔ فادخلوا نارا۔ کہ انہیں معا آگ میں ڈال دیا گیا۔ اسی سے اہلسنت عذاب قبر پر استدلال کرتے ہیں ۔۔ الخ۔ علامہ ثناء اللہ پانی پتی (رح) تعالیٰ رقمطراز ہیں :۔ ہم کہتے ہیں یہ توجیہات مجازی ہیں اصل کلام میں حقیقت ہے۔ خواہ مخواہ حقیقی معنی کو چھوڑ کر مجازی کی طرف رجوع کرنا جائز نہیں۔ اس کے علاوہ بیشمار احادیث ہیں کہ عذاب قبر کا ثبوت ملتا ہے اجماع سلف صالحین بھی اسی پر ہے ۔۔ اس کے بعد آپ نے چند احادیث نقل فرمائی ہیں۔ نارا مفعول فیہ آگ میں (یعنی عذاب قبر میں) ۔ فلم یجدوا :عاطفہ ہے لم یجدوا فعل مضارع نفی جحد بلم جمع مذکر غائب۔ انہوں نے نہ پایا۔ لہم اپنے لئے۔ لم یجدوا میں ضمیر فاعل اور لہم میں ضمیر ہم جمع مذکر غائب قوم نوح کے لئے ہے۔ انصارا منصوب بوجہ مفعول ہونے لم یجدوا کے۔ پھر انہوں نے اپنے لئے کوئی مددگار اللہ کے سوا نہ پایا۔ (کہ ان کو اللہ کے عذاب سے بچائے) ۔ انصار جمع نصیر اور ناصر کی۔ قرآن مجید میں جہاں مہاجرین و انصار کا ذکر ہے وہاں انصار سے مراد انصار مدینہ ہیں۔ جو نصرت نبی کریم ﷺ کی بدولت اسی لقب سے سرفراز کئے گئے۔
Top