Madarik-ut-Tanzil - Az-Zumar : 45
اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اتَّقُوْهُ وَ اَطِیْعُوْنِۙ
اَنِ اعْبُدُوا اللّٰهَ : کہ عبادت کرو اللہ کی وَاتَّقُوْهُ : اور ڈرو اس سے وَاَطِيْعُوْنِ : اور اطاعت کرو میری
اور جب تنہا خدا کا ذکر کیا جاتا ہے تو جو لوگ آخرت پر ایمان نہیں رکھتے ان کے دل منقبض ہوجاتے ہیں اور جب اس کے سوا اوروں کا ذکر کیا جاتا ہے تو خوش ہوجاتے ہیں
وَاِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَحْدَهُ (جب فقط اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جاتا ہے) ، یہاں معنی کا مدار وحدہ پر ہے۔ مطلب یہ ہے جب فقط اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ان کے معبودوں کا ذکر نہیں کیا جاتا ہے۔ آیت (منقبض ہوتے ہیں) نفرت کرتے اور گھٹتے ہیں۔ آیت (ان لوگوں کے دل جو آخرت کا یقین نہیں رکھتے اور جب اس کے سوا اوروں کا ذکر آتا ہے) اللہ تعالیٰ کے ساتھ ان کے معبودوں کا تذکرہ بھی کیا جاتا ہے۔ یا ذکر نہ کیا جائے۔ آیت (تو اسی وقت وہ لوگ خوش ہوجاتے ہیں) کیونکہ وہ ان پر مفتون ہیں یا جب ان سے کہا جاتا ہے لا الہ الا اللہ وحدہ لا شیک لہ، تو بھاگ کھڑے ہوتے ہیں کیونکہ اس میں ان کے معبودوں کی نفی ہے۔ نکتہ : آیت میں استبشار (خوش ہونا) اور اشمزاز، منقبض ہونا، کو ایک دوسرے کے بالمقابل ذکر کیا گیا ہے۔ کیونکہ ان میں سے ہر ایک اپنے سلسلہ میں انتہاء ہے، پس استبشار اس خوشی کو کہتے ہیں جس سے اس کا دل سرور و خوشی سے اس قدر پر ہو کہ خوشی اس کے چہرہ کی رونق بن رہی ہو۔ اور خوشی سے چہرہ تمتما رہا ہو۔ اور اشمزاز اس گھٹن کو کہتے ہیں جس سے اس کا دل غم و غیظ سے اس قدر پر ہو کہ وہ انقباض اس کے چہرے کے بلوں میں نمایاں ہو رہا ہو (کذا قال البیضاوی) نوحی : اذا زکر میں عامل وہی ہے جو اذا مفاجاتیہ میں عامل ہوا کرتا ہے۔ تقدیر کلام یہ ہے وقت ذکر الذین من دونہ فاجوا وقت الاستبشار۔ اس کے سوا اوروں کے تذکرہ کے وقت اچانک وہ نہایت خوش ہوجاتے ہیں۔
Top