Anwar-ul-Bayan - Al-Insaan : 21
عٰلِیَهُمْ ثِیَابُ سُنْدُسٍ خُضْرٌ وَّ اِسْتَبْرَقٌ١٘ وَّ حُلُّوْۤا اَسَاوِرَ مِنْ فِضَّةٍ١ۚ وَ سَقٰىهُمْ رَبُّهُمْ شَرَابًا طَهُوْرًا
عٰلِيَهُمْ ثِيَابُ : انکے اوپر کی پوشاک سُنْدُسٍ : باریک ریشم خُضْرٌ : سبز وَّاِسْتَبْرَقٌ ۡ : اور دبیز ریشم (اطلس) وَّحُلُّوْٓا : اور انہیں پہنائے جائیں گے اَسَاوِرَ : کنگن مِنْ فِضَّةٍ ۚ : چاندی کے وَسَقٰىهُمْ : اور انہیں پلائے گا رَبُّهُمْ : ان کا رب شَرَابًا : ایک شراب (مشروب) طَهُوْرًا : نہایت پاک
ان (کے بدنوں) پر دیبا کے سبز اور اطلس کے کپڑے ہونگے اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے اور ان کا پروردگار انکو نہایت پاکیزہ شراب پلائے گا
(76:21) علیہم ثیاب سندس خضر واستیرق : علیہم ان کے اوپر کی پوشاک ۔ جو چیز اوپر ہے اور بالا ہو وہ عالی ہے۔ اوپر کی پوشاک میں بھی چونکہ یہ بات موجود ہے اس لئے وہ بھی عالی ہے اور یہاں اس لفظ سے یہی معنی مراد ہیں۔ عالی مضاف (بمعنی فوق) ہم ضمیر جمع مذکر گا ئب مضاف الیہ۔ عالی منصوب بوجہ ظرفیت کے ہے۔ ای فوق) ہم کی ضمیر کا مرجع اہل جنت ہیں نہ کہ ان لڑکوں کے لئے ہے جو اہل جنت کی خدمت کے لئے دوڑے پھر رہے ہوں گے (تفہیم القرآن جلد ششم فٹ نوٹ نمبر 33 زیر آیت 21 ۔ سورة الدھر) ثیاب ثوب کی جمع ہے کپڑے۔ لباس سندس۔ باریک۔ ریشم ، باریک دیبا۔ خضر سبز، ہرے۔ اخضر، خضراء کی جمع (افعل فعلاء فضل کے وزن پر) استبرق ریشم کا زریں موٹا کپڑا۔ دیبا۔ ثیاب خضر مبتداء ۔ مؤخر۔ علیہم خبر مقدم ہے۔ ثیاب سندس مضاف مضاف الیہ۔ خضر صفت ہے ثیاب کی، واؤ عاطفہ، سندس مبتدا۔ مؤخر (علیہم خیر مقدم) ۔ ترجمہ ہوگا :۔ ان (اہل جنت) کے اوپر لباس ہوگا سبز باریک ریشم کا۔ اور ریشم کے زرین موٹے کپڑے کا وحلوا اساور من فضۃ۔ واؤ عاطفہ۔ حلوا ماضی مجہول کا صیغہ جمع مذکر غائب تحلیۃ (تفعیل) مصدر ۔ بمعنی زیور پہنانا۔ ان کو زیور پہنایا گیا۔ ان کو آراستہ کیا گیا۔ حلی زیور۔ (واحد) حلی، جمع۔ جیسے ثدی کی جمع ثدی ہے۔ (بمعنی پستان) ۔ حلوا ماضی بمعنی مستقبل ہے ان کو پہنائے جائیں گے۔ وہ پہنائے جائیں گے۔ اساور ۔ سوار کی جمع ، کنگن، پہنچیاں ، منصوب بوجہ مفعول ہونے کے۔ من فضۃ میں من بیانیہ ہے۔ چاندی کی بنی ہوئی ۔ چاندی کی۔ اور انہیں چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے۔ آیت 18-31 میں ہے یحلون فیہا من اساور من ذھب (ان کو وہاں سونے کے کنگن پہنائے جائیں گے) ۔ صاحب تفہیم القرآن اس فرق کی وضاحت یوں فرماتے ہیں :۔ سورة الکہف 31 میں فرمایا گیا ہے ویحلون فیہا من اساور من ذھب۔ اور یہی مضمون سورة الحج 22 آیت 23 اور سورة فاطر 35-33) میں بھی ارشاد ہوا ہے ان سب آیتوں کو ملا کر دیکھا جائے تو تین صورتیں سامنے آتی ہیں۔ ایک یہ کہ کبھی وہ چاہیں گے تو سونے کے کنگن پہنیں گے۔ اور کبھی چاہیں گے تو چاندی کے کنگن پہنچیں گے دونوں چیزیں ان کے حسب خواہش موجود ہوں گی۔ دوسرے یہ کہ سونے اور چاندی کے کنگن وہ بیک وقت پہنیں گے کیونکہ دونوں کو ملا دینے سے حسن دو بالا ہوتا ہے۔ تیسرے یہ کہ جس کا جی چاہے گا سونے کے کنگن پہنے گا اور جو چاہے گا چاندی کے کنگن استعمال کرے گا۔ (تفہیم القرآن جلد ششم سورة الدھر فٹ نوٹ نمبر 24) وسقھم ربھم شرا باطھررا۔ اس کا عطف جملہ سابقہ پر ہے سقی ماضی (بمعنی مستقبل) واحد مذکر غائب سقی (باب ضرب) مصدر۔ بمعنی پلانا۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب کا مرجع اہل جنت ہے۔ ربھم مضاف مضاف الیہ ۔ شرابا طھورا موصوف صفت منصوب بوجہ مفعول فعل سقی۔ اور ان کا پروردگار ان کو شرابا طھورا پلائے گا۔ شرابا طھورا کے متعلق مختلف اقوال ہیں :۔ علامہ بیضاوی لکھتے ہیں :۔ ان اقوال سے بہتر وہ قول ہے جس میں کہا گیا ہے کہ یہاں شراب کی ایک اور خاص قسم مراد ہے جو دونوں مذکورہ اقسام (متصف بہ مزاج کا غور و متصف بہ مزاج زنجیل) سے اعلیٰ ہے اسی کو شراب طہور فرمایا ہے کیونکہ اس کو پینے والا تمام حسی لذتوں کی طرف میلان اور غیر اللہ کی رغبت سے پاک ہوجاتا ہے صرف جمال ذات کا معائنہ کرتا ہے اور دیار الٰہی سے لطف اندوز ہوتا ہے اور یہ صدیقین کے درجہ کی انتہا ہے اور ابرار کے ثواب کا اختتام ہے۔
Top