Anwar-ul-Bayan - Al-Insaan : 24
فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَ لَا تُطِعْ مِنْهُمْ اٰثِمًا اَوْ كَفُوْرًاۚ
فَاصْبِرْ : پس صبر کریں لِحُكْمِ : حکم کے لئے رَبِّكَ : اپنے رب کے وَلَا تُطِعْ : اور آپ کہا نہ مانیں مِنْهُمْ : ان میں سے اٰثِمًا : کسی گنہگار اَوْ كَفُوْرًا : یا ناشکرے کا
تو اپنے پروردگار کے حکم کے مطابق صبر کئے رہو اور ان لوگوں میں سے کسی بدعمل اور ناشکرے کا کہا نہ مانو
(76:24) فاصبر لحکم ربکسببیہ ہے (ف سے پہلے کا کلام بعد والے حکم کا سبب ہے۔ یعنی جب تم نے نیکوں اور بروں کا حال جان لیا۔ اور جزاء و سزا کی تاخیر کا سبب بھی جان لیا۔ تو کافروں کی طرف سے پہنچنے والے دکھ پر صبر کرو۔ کافروں کو عذاب دینے کی جلدی مت کرو۔ کافروں پر فتح یاب ہونے میں جو تاخیر خیر ہو رہی ہے اس سے رنجیدہ نہ ہو اور جب تم جانتے ہو کہ قرآن خدا نے ہی نازل کیا ہے تو اس کے تشریعی احکام پر صبر کرو۔ اصبر فعل امر واحد مذکر حاضر، صبر (باب ضرب) مصدر۔ تو صبر کر۔ ولا تطع منہم : واؤ عاطفہ، لاتطع فعل نہیں واحد مذکر حاضر۔ اطاعۃ (افعال) مصدر تو اطاعت نہ کر۔ تو حکم نہ مان۔ منھم میں من تبعیضیہ ہے۔ ہم ضمیر جمع مذکر غائب کا مرجع کفار مکہ ہیں۔ اثما او کفورا : اثما : اثم (باب سمع) مصدر سے اسم فاعل کا صیغہ واحد مذکر ہے۔ گناہ کرنے والا۔ گنہگار۔ او بمعنی یا۔ کفورا کفر (باب نصر) مصدر۔ صفت مشبہ منصوب۔ ناشکرا۔ ناشکر گزار۔ کافر (مراد وہ کافر کی طرف بلانے والا ہے) فائدہ : او بمعنی یا کے استعمال سے شبہ پیدا ہوتا ہے کہ اثم یا کفور کی اطاعت سے منع کیا گیا ہے یعنی اختیار دیا گیا ہے کہ تم آثم اطاعت مت کرو یا کفور کی اطاعت مت کرو۔ دونوں میں سے کسی ایک کی اطاعت مت کرو۔ یعنی ایک کو کہنا مت مانو دوسرے کا مانو۔ اس شبہ کا ازالہ یہ ہے کہ اثما او کفورا ! دونوں نکرہ ہیں جو تحت النفی عموم کا فائدہ دیتا ہے اس لئے ممانعت میں عموما کا فائدہ دیا جا رہا ہے یعنی کوئی گناہ کی دعوت دے یا کفر کی یا دونوں کی تم کسی کی اطاعت مت کرو اگر بجائے او کے آیت میں واؤ ہوتا تو یہ مطلب ہوجاتا کہ اس شخص کی اطاعت مت کرو جو تم کو اثم اور کفر دونوں کی دعوت دیتا ہو اس سے یہ نہیں معلوم ہوتا کہ تنہا آثم یا صرف کفر کی دعوت دیتا ہو کی اطاعت نہ کرو۔ (تفسیر مظہری) اثما او کفررا دونوں لاتطع کے مفعول ہونے کی وجہ سے منصوب ہیں۔
Top