Anwar-ul-Bayan - Al-Insaan : 28
نَحْنُ خَلَقْنٰهُمْ وَ شَدَدْنَاۤ اَسْرَهُمْ١ۚ وَ اِذَا شِئْنَا بَدَّلْنَاۤ اَمْثَالَهُمْ تَبْدِیْلًا
نَحْنُ خَلَقْنٰهُمْ : ہم نے انہیں پیدا کیا وَشَدَدْنَآ : اور ہم نے مضبوط کئے اَسْرَهُمْ ۚ : ان کے جوڑ وَاِذَا شِئْنَا : اور جب ہم چاہیں بَدَّلْنَآ : ہم بدل دیں اَمْثَالَهُمْ : ان جیسے لوگ تَبْدِيْلًا : بدل کر
ہم نے ان کو پیدا کیا اور انکے مفاصل کو مضبوط بنایا اور اگر ہم چاہیں تو ان کے بدلے انہی کی طرح اور لوگ لے آئیں
(76:28) نحن خلقنھم۔ ہم نے ہی ان کو پیدا کیا ہے۔ ہم ضمیر مفعول جمع مذکر غائب کا مرجع کفار مکہ ہیں۔ وشددنا اسرہم : اس کا عطف جملہ سابقہ پر ہے۔ شددنا ماضی جمع متکلم۔ شد باب نصر و ضرب) مصدر سے جس کا معنی مضبوط باندھنے کے ہیں۔ اسرھم مضاف مضاف الیہ ان کی جوڑ بندی، ان کی قید کی بندش (حاصل مصدر) ۔ الاسر کے معنی قید میں جکڑ لینے کے ہیں یہ اسرت العتب سے لیا گیا ہے جس کے معنی ہیں : میں نے پالان کو مضبوطی سے باندھ دیا۔ قیدی کو اسیر اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ رسی وغیرہ سے باندھا ہوتا ہے۔ آیت ہذا میں ” ہم نے ان کی بندش کو مضبوطی سے باندھ دیا “ میں اس حکمت الٰہی کی طرف اشارہ ہے جو انسان کی ہیئت ترکیبی میں پائی جاتی ہے۔ قدرت الٰہی نے انسان کے مختلف اعضاء کو ایک دوسرے کے ساتھ پٹھوں، ریشوں اور رگوں کے ذریعے بڑی پختگی سے جوڑ دیا ہے سب اعضاء اپنے فرائض انجام دیتے رہتے ہیں اس کے باوجود ایک دوسرے سے پیوستہ بھی ہیں۔ ایک دوسرے کی قوت و طاقت کا ذریعہ بھی ہیں ایک دوسرے کا بوجھ بھی اٹھائے ہوئے ہیں۔ اگر اسی ایک بات پر تم غور کرو تو تمہارے شکوک و شبہات کے بادل سب چھٹ جائیں گے۔ (راغب ، ضیاء القرآن) واذا شیئنا بدلنا امثالہم تبدیلا : شیئنا کا مفعول محذوف ہے ای اہلاکہم او تبدیلہم۔ اذا بمعنی جب، شیئا کا ظرف ۔ شئنا ماضی جمع متکلم مشیئۃ (باب سمع) مصدر۔ ہم نے چاہا۔ ہم چاہیں۔ اس کا عطف شددنا پر ہے۔ یہ جملہ شرطیہ ہے۔ بدلنا امثالہم جواب شرط ہے۔ بدلنا ماضی کا صیغہ جمع متکلم تبدیل (تفعیل) مصدر ہم نے بدل ڈالا۔ ہم بدل ڈالیں۔ امثالہم مضاف مضاف الیہ۔ ان کی مثالیں، ان جیسے ۔ تبدیلا مفعول مطلق تاکید کے لئے ہے۔ ترجمہ ہوگا :۔ ہم نے ہی ان کو پیدا کیا ہے اور ان کے جوڑ مضبوط کئے ہیں۔ اور جب ہم چاہیں ان کی شکلوں کو بدل کر رکھ دیں۔ (مودودی) ۔ مودودی صاحب تفہیم القرآن کے فٹ نوٹ میں رقم طراز ہیں :۔ اذا شئنا بدلنا امثالہم تبدیلا اس جملہ کے کئی معنی ہوسکتے ہیں :۔ ایک یہ کہ ہم جب چاہیں انہیں ہلاک کرکے ان ہی کی جنس کے دوسرے لوگ ان کی جگہ لاسکتے ہیں ۔ جو اپنے کردار میں ان سے مختلف ہوں گے۔ دوسرے یہ کہ ہم جب چاہیں ان کی شکلیں تبدیل کرسکتے ہیں۔ یعنی جس طرح ہم کسی کو تندرست اور سلیم الاعضا بنا سکتے ہیں ، اسی طرح ہم اس پر بھی قادر ہیں کہ کسی کو مفلوج کردیں کہ کسی کو لقوہ مار جائے اور ۔۔ کسی بیمای یا حادثہ کا شکار ہو کر اپاہج ہ جائے۔ تیسرے یہ کہ ہم جب چاہیں موت کے بعد ان کو دوبارہ کسی اور شکل میں تبدیل کرسکتے ہیں۔
Top