Anwar-ul-Bayan - Al-Insaan : 7
یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَ یَخَافُوْنَ یَوْمًا كَانَ شَرُّهٗ مُسْتَطِیْرًا
يُوْفُوْنَ : وہ پوری کرتے ہیں بِالنَّذْرِ : (اپنی) نذریں وَيَخَافُوْنَ : اور وہ ڈر گئے يَوْمًا : اس دن سے كَانَ : ہوگی شَرُّهٗ : اس کی بُرائی مُسْتَطِيْرًا : پھیلی ہوئی
یہ لوگ نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے جس کی سختی پھیل رہی ہوگی خوف رکھتے ہیں
(76:7) یوفون بالنذر جملہ مستانفہ ہے جس میں ابرار کا حال بیان کیا گیا ہے ۔ اس میں ان اعمال حسنہ اور اخلاق حمیدہ کا بیان ہے جن کی وجہ سے ان کو جنت کی مذکورہ بالا نعمتیں عطا ہوں گی۔ یوفون مضارع جمع مذکر غائب ایفاء (افعال) مصدر۔ وہ پوری کرتے ہیں۔ وی مادہ۔ الوافی مکمل اور پوری چیز کو کہتے ہیں۔ النذر بطور اسم، بمعنی منت بطور مصدر بمعنی منت ماننا۔ نذر کا لغوی معنی ہے غیر واجب چیز کو اپنے اوپر واجب کرلینا۔ النذر کی تشریح کرتے ہوئے فقہاء کرام لکھتے ہیں۔ النذر ھو ایجاب المکلف علی نفسہ من الطاعات مالم یوجبہ لم یلزمہ۔ یعنی کسی مکلف (عاقل بالغ مومن کا) اپنے اوپر کسی ایسی چیز کا (نیکی اور عبادت کا) واجب کرلینا۔ کہ اگر وہ خود اس کو لازم کرے تو یہ اس پر لازم نہ ہو۔ گویا ابرار کی پہلی صفت یہ ہوگی کہ وہ اپنی منتیں پوری کرتے ہیں۔ ویخافون یوما کان شرہ مستطیرا : اس جملہ کا عطف جملہ سابقہ پر ہے کان فعل ناقص شرہ (مضاف مضاف الیہ) اسم کان۔ مستطیرا۔ استمطار (استفعال) مصدر سے اسم فاعل واحد مذکر صفت ہے یوما کی۔ یوما سے مراد روز قیامت ہے۔ مادہ ط ی ر سے مشتق ہے بمعنی پھیلا ہوا۔ عام ۔ طیران کا اصل معنی ہے اڑنا مجازا کبھی اس سے سرعت رفتار مراد ہوتی ہے۔ جیسے فرش مطار۔ تیز رفتار گھوڑا۔ کبھی منتشر ہونا۔ اور پھیلنا ۔ جیسے غبار مستطار پھیلا ہوا غبار۔ استطار الحریق : آگ بہت پھیل گئی۔ استطار الفجر صبح کی روشنی بہت پھیل گئی۔ اسی مادہ سے ہے طائر بمعنی پرندہ۔ طیارہ بمعنی ہوئی جہاز۔ اور مطار ہوائی اڈہ، ائیرپورٹ شرہ (مضاف مضاف الیہ) اس کا شر۔ اس کی برائی۔ اس کی ہولناکی۔ یعنی قیامت کے روز آسمان پھٹ جائیں گے ۔ آسمان خاک ہوکر اڑ جائیں گے۔ پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائیں گے وغیرہ وغیرہ۔ ہ ضمیر واحد مذکر غائب کا مرجع یوما ہے۔ یہ ابرار کی دوسری صفت ہوگی۔ کہ وہ ڈرتے ہیں اس دن سے کہ جس کا شر ہر سو پھیلا ہوا ہوگا۔
Top