Anwar-ul-Bayan - An-Naba : 4
كَلَّا سَیَعْلَمُوْنَۙ
كَلَّا سَيَعْلَمُوْنَ : ہرگز نہیں عنقریب وہ جان لیں گے
دیکھو یہ عنقریب جان لیں گے
(78:4) کلا سیعلمون : جمہور کے نزدیک کلا حرف بسیط (سادہ غیر مرکب ہے) ثعلب نحوی کے نزدیک مرکب ہے کاف تشبیہ اور لا نافیہ سے۔ حالت ترکیب میں ک اور لا کے انفرادی معنی باقی نہیں رہے اسی لئے لام کو مشدد کردیا گیا۔ سیبویہ، خلیل، مبرد، زجاج اور اکثر بصری ادیبوں کے نزدیک کلا کے معنی حرف ردع اور روکنے کے ہیں۔ خواہ زجرو تو بیخ کے طور پر ہو یا بطور ترتیب اور ادب آموزی کے۔ اسی لئے ان علماء کے نزدیک قرآن مجید کے تمام 33 مقامات میں جس جس جگہ کلا آیا ہے ہر جگہ کلا پر وقف کرنا جائز ہے۔ لیکن مغنی اللبیب کے مصنف نے اس رائے سے اتفاق نہیں کیا۔ کسائی اور ابو حاتم کا قول ہے کہ کلا اکثر زجر ومنع کے لئے آتا ہے اور کبھی دوسرے معنی کے لئے۔ لیکن دوسرے معانی کیا ہوتے ہیں اس کی تعیین میں اختلاف ہے۔ صغار کے نزدیک کلا اسم ہے اور کسی کلام کو مسترد کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے اور کبھی حقا کے معنی میں مستعمل ہے یہ کیسے معلوم ہو کہ کلا ردع اور رد کے معنی میں استعمال ہوا ہے یا حقا کے معنی میں ؟ اس بارے میں علامہ راکشی کا قول ہے۔ اگر وقف کلا پر ہو تو اس وقت ردع اور رد کے معنی میں ہوگا۔ اور اگر کلا سے پہلے وقف ہو اور کلا سے اگلے جملہ کی ابتداء ہو تو اس وقت حقا کے معنی میں ہوگا۔ جملہ زبر مطالعہ اور جملہ آئندہ (آیت 5) میں جملہ کی ابتداء کلا سے ہو رہی ہے اور وقف اس سے پہلے اس لئے یہاں کلا بمعنی حقا ہوگا۔ دیکھو ضیاء القرآن۔ سیعلمون : میں س مضارع پر داخل ہوکر اس کو مستقبل کے لئے خاص کردیتا ہے اور مستقبل قریب کے معنی دیتا ہے۔ یعلمون مضارع جمع مذکر غائب علم (باب سمع) مصدر سے یعلمون کا مفعول محذوف ہے۔ یعنی قیامت کے وقوع پذیر ہونے کو۔ ترجمہ ہوگا :۔ بیشک (یہ لوگ) عنقریب (قیامت کے وقوع پذیر ہونے کی حقیقت کو) جان لیں گے۔
Top