Anwar-ul-Bayan - At-Tawba : 66
لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ١ؕ اِنْ نَّعْفُ عَنْ طَآئِفَةٍ مِّنْكُمْ نُعَذِّبْ طَآئِفَةًۢ بِاَنَّهُمْ كَانُوْا مُجْرِمِیْنَ۠   ۧ
لَا تَعْتَذِرُوْا : نہ بناؤ بہانے قَدْ كَفَرْتُمْ : تم کافر ہوگئے ہو بَعْدَ : بعد اِيْمَانِكُمْ : تمہارا (اپنا) ایمان اِنْ : اگر نَّعْفُ : ہم معاف کردیں عَنْ : سے (کو) طَآئِفَةٍ : ایک گروہ مِّنْكُمْ : تم میں سے نُعَذِّبْ : ہم عذاب دیں طَآئِفَةً : ایک (دوسرا) گروہ بِاَنَّهُمْ : اس لیے کہ وہ كَانُوْا : تھے مُجْرِمِيْنَ : مجرم (جمع)
بہانے مت بناؤ تم ایمان لانے کے بعد کافر ہوچکے ہو۔ اگر ہم تم میں سے ایک جماعت کو معاف کردیں تو دوسری جماعت کو سزا بھی دینگے۔ کیونکہ وہ گناہ کرتے رہے ہیں۔
(9:66) لاتعتذروا۔ فعل نہی جمع مذکر حاضر۔ اعتذار (افتعال) مصدر۔ تم بہانے مت بناؤ۔ تم عذر نہ کرو۔ طائفۃ۔ یہاں طائفہ سے ہر دو جگہ گروہ مراد ہوسکتا ہے۔ یعنی تم میں سے ایک گروہ کو ہم معاف بھی کردیں ۔ تو دوسرے گروہ کو ہم ضرور سزا دیں گے۔ اس صورت میں پہلے گروہ سے مراد طبقہ لیا جاسکتا ہے جو اپنے قول کی اہمیت اور گہرائی کو سمجھے بغیر کم فہم عقل انسانوں کی طرح جو ہر بات کو سطحی طور پر ہی لیتے ہیں اور سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ اگر ایسا گروہ استہزاء کا مرتکب ہو تو توبہ کرنے پر ایسے گروہ کو معاف کیا جاسکتا ہے لیکن جو جان بوجھ کر اور اپنے قول کے نتائج سے باخبر ہوتے ہوئے بھی ایسا کرتے ہیں اور پھر توبہ بھی نہیں کرتے تو ایسے گروہ کو تو ہرگز معاف نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ وہ محض مسخرے ہی نہیں بلکہ وہ تو صحیح معنوں میں مجرم ہیں۔ اور اگر پہلے لفظ طائفہ (لفظ جمع) سے مراد شخص واحد لیا جائے جیسا کہ اہل عرب بعض دفعہ ایسا کرلیتے ہیں تو اس طائفہ سے مراد مخاشن بن حمیر الاشجعی ہے جو بلا سمجھے کافروں کے ساتھ ہنسی ٹھٹھا میں شامل ہوجاتا تھا ۔ اگرچہ وہ ان کے دھڑے میں سے تھا لیکن بعض باتوں میں وہ ان کے ساتھ شامل نہ ہوتا تھا۔ لہٰذا مقابلۃً اس کا گناہ خفیف تھا۔ اس نے توبہ کرلی خداوند تعالیٰ نے اس کی توبہ قبول کرکے اسے معاف فرما دیا۔ وہ حقیقی معنوں میں اسلام لے آیا اور جنگ یمامہ میں شہید ہوا۔ مجرمین۔ مجرم۔ اسم فاعل بمعنی اسم صفت استعمال ہوا ہے۔
Top