Ashraf-ul-Hawashi - Yunus : 25
وَ اللّٰهُ یَدْعُوْۤا اِلٰى دَارِ السَّلٰمِ١ؕ وَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
وَاللّٰهُ : اور اللہ يَدْعُوْٓا : بلاتا ہے اِلٰى : طرف دَارِ السَّلٰمِ : سلامتی کا گھر وَيَهْدِيْ : اور ہدایت دیتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جسے وہ چاہے اِلٰى : طرف صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھا
اور اللہ (لوگوں کو) اس گھر کی طرف بلاتا ہے جو ہلاکت5 اور تباہی سے) بچا ہوا ہے اور جس کو چاہتا ہے وہ راہ پر لگا دیتا ہے
5۔ اوپر کی آیت میں دنیا اور اس کے سرعت زوال کا ذکر کرکے لوگوں کو اس کی طرف مائل ہونے سے نفرت دلائی۔ اب اس آیت میں جنت کی ترغیب دی اور جنت کا نام ” دار السلام “ رکھا یعنی جو ہر قسم کے ذلت و آلام سے پاک ہے اور اس میں سلامتی ہی سلامتی ہے۔ فرشتے ہر طرف سے اس میں سلام کریں گے اور اہل جنت بھی ایک دوسرے کو سلام کا تحفہ پیش کریں گے۔ تحتھم فیھا سلام۔ اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کے ذریعہ لوگوں کو جنت کی دعوت دی ہے۔ جیسا کہ ایک حدیث میں ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ میری اور میری امت کی مثال ایسی ہے کہ ایک بادشاہ نے ایک محل بنایا پھر اس میں ایک شاندار دعوت کا اہتمام کیا اور لوگوں کو بلانے کے لئے اپنا ایک قاصد بھیجا۔ بعض لوگوں نے اس قاصد کو کہا مانا ( اور محل میں آکر خوب مزے مزے کے کھانے کھائے) اور بعض لوگوں نے اس کی بات نہ مانی ( اور کھانوں سے محروم رہے) ۔ اس مثال میں بادشاہ سے مراد اللہ تعالیٰ ہے، محل سے مراد جنت اور قاصد سے مراد میں (محمد رسول اللہ ﷺ ) ہوں۔ لہٰذا جو آپ ﷺ کی بات مانے گا وہ اسلام میں داخل ہوگا اور جو اسلام میں داخ (رح) ہوگا وہ جنت میں داخل ہوگا اور جو جنت میں داخل ہوگا وہ اس کی نعمتوں سے لذت اندوز ہوگا۔
Top