Ashraf-ul-Hawashi - Yunus : 46
وَ اِمَّا نُرِیَنَّكَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُهُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّكَ فَاِلَیْنَا مَرْجِعُهُمْ ثُمَّ اللّٰهُ شَهِیْدٌ عَلٰى مَا یَفْعَلُوْنَ
وَاِمَّا : اور اگر نُرِيَنَّكَ : ہم تجھے دکھا دیں بَعْضَ : بعض (کچھ) الَّذِيْ : وہ جو نَعِدُھُمْ : وہ عدہ کرتے ہیں ہم ان سے اَوْ : یا نَتَوَفَّيَنَّكَ : ہم تمہیں اٹھا لیں فَاِلَيْنَا : پس ہماری طرف مَرْجِعُھُمْ : ان کا لوٹنا ثُمَّ : پھر اللّٰهُ : اللہ شَهِيْدٌ : گواہ عَلٰي : پر مَا يَفْعَلُوْنَ : جو وہ کرتے ہیں
اور (اے پیغمبر) ہم جو ان کافروں سے عذاب کا وعدہ کرتے ہیں اگر تجھ کو اس میں سے کچھ دنیا ہی میں کھلا دیں6 یا ہم تجھ کو (دنیا سے) اٹھا لیں تو بھی تیرا مطلب حاصل ہے یہ سب کافر ہمارے پاس لوٹ کر آنیوالے ہیں7 پھر سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ جو وہ کرتے ہیں اللہ اس کو دیکھ رہا ہے
6 ۔ آپ ﷺ کے دین کا غلبہ اور مخالفین کی ذلت و خواری یعنی قتل و قید۔ الغرض یہ وعدے قرآن کے بیان کے مطابق بعض تو آپ ﷺ کی زندگی میں ظاہر ہوگئے اور کچھ آپ ﷺ کی وفات کے بعد خلفائے ؓ کے زمانہ میں۔ بہرحال آپ ﷺ سچے ہیں۔ موضح میں ہے۔ غلبہ اسلام کو کچھ حضرات کے رو بروہوا اور باقی آپ ﷺ کی وفات کے بعد خلفاء ؓ کے عہد میں ہوا۔ شاید ” اونتوفینک “ میں اس دوسرے دور کی طرف اشارہ ہے۔ (کذافی الکبیر) ۔ 7 ۔ یعنی وہاں ہم آپ ﷺ کو ان کا عذاب دکھا دیں گے۔ اس میں تنبیہ ہے کہ حق پرستوں کی عاقبت محمود اور مخالفین کی عاقبت نہایت مذموم ہوگی۔ (کبیر) ۔
Top