Ashraf-ul-Hawashi - Hud : 43
قَالَ سَاٰوِیْۤ اِلٰى جَبَلٍ یَّعْصِمُنِیْ مِنَ الْمَآءِ١ؕ قَالَ لَا عَاصِمَ الْیَوْمَ مِنْ اَمْرِ اللّٰهِ اِلَّا مَنْ رَّحِمَ١ۚ وَ حَالَ بَیْنَهُمَا الْمَوْجُ فَكَانَ مِنَ الْمُغْرَقِیْنَ
قَالَ : اس نے کہا سَاٰوِيْٓ : میں جلد پناہ لے لیتا ہوں اِلٰي جَبَلٍ : کسی پہاڑ کی طرف يَّعْصِمُنِيْ : وہ بچالے گا مجھے مِنَ الْمَآءِ : پانی سے قَالَ : اس نے کہا لَا عَاصِمَ : کوئی بچانے والا نہیں الْيَوْمَ : آج مِنْ : سے اَمْرِ اللّٰهِ : اللہ کا حکم اِلَّا : سوائے مَنْ رَّحِمَ : جس پر وہ رحم کرے وَحَالَ : اور آگئی بَيْنَهُمَا : ان کے درمیان الْمَوْجُ : موج فَكَانَ : تو وہ ہوگیا مِنَ : سے الْمُغْرَقِيْنَ : ڈوبنے والے
وہ کہنے لگا میں ابھی اس پہاڑ پر ہو رہتا ہوں جوانوں خان کے) پانی سے مجھ کو بچا لے گا نوح نے کہا آج اللہ کے عذاب سے کوئی نہیں بچا سکتا مگر جس پر اللہ ہی رحم کرے اوہ بچ سکتا ہے6 اور باپ بیٹے یہ باتیں کر رہے تھے کہ انی کی موج دونوں کے بیچ میں آن پڑی اور وہ بھی ان میں شریک ہوا جو ڈبو دیئے گئے
6 ۔ یا دوسرا ترجمہ یہ ہوسکتا ہے اور وہی لفظی ترجمی بھی ہے کہ آج اللہ کے عذاب سے کوئی بچانے والا نہیں ہے مگر جو رحم کرنے والا ہے۔ (یعنی خود اللہ تعالی) آیت میں یہ ایک وجہ ہے جو محققین نے ذکر کی ہے اور یہی قویٰ ہے کیونکہ فاعل کا صیغہ زیادہ تر صفت کے لئے آتا ہے اور نسبت کے لئے کم استعمال ہوتا ہے۔ (روح) ۔
Top