Ashraf-ul-Hawashi - An-Nahl : 115
اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْكُمُ الْمَیْتَةَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَ مَاۤ اُهِلَّ لِغَیْرِ اللّٰهِ بِهٖ١ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں حَرَّمَ : حرام کیا عَلَيْكُمُ : تم پر الْمَيْتَةَ : مردار وَالدَّمَ : اور خون وَلَحْمَ : اور گوشت الْخِنْزِيْرِ : خنزیر وَمَآ : اور جس اُهِلَّ : پکارا جائے لِغَيْرِ اللّٰهِ : اللہ کے علاوہ بِهٖ : اس پر فَمَنِ : پس جو اضْطُرَّ : لاچار ہوا غَيْرَ بَاغٍ : نہ سرکشی کرنیوالا وَّ : اور لَا عَادٍ : نہ حد سے بڑھنے والا فَاِنَّ اللّٰهَ : تو بیشک اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اس نے تو تم پر (کچھ) حرام نہیں کیا مگر مردار اور خون اور سور کا گوشت اور جس جانور پا للہ کے سوا اور کسی کا نام پکارا جائے2 پھر جو شخص (مارے بھوک کے) بےقرار ہو ( اور دوسرے بھوکے پر) ظلم نہ کرے نہ ضرورت سے زیادہ کھائے تو اللہ بخشے والا مہربان ہے
2 یعنی جس جانور کو بھی غیر اللہ کے نام سے شہرت دی جائے۔ مثلاًً شیخ سدو کا بکراہ یا سید احمد کبیر کی گائے یا فلاں شاہ کا مرغا وغیرہ۔ ہرحال میں وہ جانور حرام ہوگیا اور اھل کا لفظ ذبح کے علاوہ اس کو بھی شامل ہے۔ حدیث شریف میں آیا ہے۔ ملعون من ذبح لغیر اللہ (سسن ابی دائود) لہٰذا جس پر غیر اللہ کا نام آگیا تو اس میں ایسی خباثت آگئی جو مردار ہیں بھی نہیں کیونکہ مردار پر تو صرف اللہ کا نام نہیں لیا گیا۔ مگر ” اھل لغین اللہ ہمیں اس جانوروں کی روح اس کے خالق کے سوا دوسرے کے نام پر بھینٹ چڑھا دی گئی اور یہ شرک ہے لہٰذا ایسا ذبیحہ حرام ہے یہ آیت شریفہ قرآن میں چار متربہ آئی ہے۔ اس کے معنی مارفع بہ الصوت بغیر اللہ “ ہیں نہ کہ ” ماذبح باسم غیر اللہ “ گویہ اس میں بطریق اولیٰ داخل ہے جس کی بنا پر بعض مفسرین نے اھل کی تفسیر ” ذبح “ جو اس وقت کی صورت حال کے پیش نظر اور بیان واقعہ کے لئے ہے۔ ہمارے دور میں اس نئے شرک کا وقوع ہوا ہے اس لئے برصغیر پاک و ہند کے علما نے اسے خوب حل فرمایا ہے اور شاہ عبدلاعزیز کی تفسیر عزیزی اس پر شاہد عدل ہے (ترجمان نواب)
Top