Tafseer-e-Usmani - Az-Zumar : 67
مَا كَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗۤ اَسْرٰى حَتّٰى یُثْخِنَ فِی الْاَرْضِ١ؕ تُرِیْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْیَا١ۖۗ وَ اللّٰهُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَةَ١ؕ وَ اللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ
مَا كَانَ : نہیں ہے لِنَبِيٍّ : کسی نبی کے لیے اَنْ : کہ يَّكُوْنَ : ہوں لَهٗٓ : اس کے اَسْرٰي : قیدی حَتّٰي : جب تک يُثْخِنَ : خونریزی کرلے فِي : میں الْاَرْضِ : زمین تُرِيْدُوْنَ : تم چاہتے ہو عَرَضَ : مال الدُّنْيَا : دنیا وَاللّٰهُ : اور اللہ يُرِيْدُ : چاہتا ہے الْاٰخِرَةَ : آخرت وَاللّٰهُ : اور اللہ عَزِيْزٌ : غالب حَكِيْمٌ : حکمت والا
نبی کو نہیں چاہیے کہ اپنے ہاں رکھے قیدیوں کو جب تک خوب خونریزی نہ کرلے ملک میں تم چاہتے ہو اسباب دنیا کا اور اللہ کے ہاں چاہیے آخرت اور اللہ زور آور ہے حکمت والاف 1
1 بدر کی لڑائی سے ستر کافر مسلمانوں کے ہاتھ میں قید ہو کر آئے حق تعالیٰ نے ان کے متعلق دو صورتیں مسلمانوں کے سامنے پیش کیں۔ قتل کردینا، یا فدیہ لے کر چھوڑ دینا اس شرط پر کہ آئندہ سال اسی تعداد میں تمہارے آدمی قتل کیے جائیں گے۔ حقیقت میں خدا کی طرف سے ان دو صورتوں کا انتخاب کے لیے پیش کرنا، امتحان و آزمائش کے طریقہ پر تھا کہ ظاہر ہوجائے کہ مسلمان اپنی رائے اور طبیعت سے کس طرف جھکتے ہیں۔ جیسے ازواج مطہرات کو دو صورتوں میں تخییر دی گئی تھی۔ ( اِنْ كُنْتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيٰوةَ الدُّنْيَا وَزِيْنَتَهَا فَتَعَالَيْنَ اُمَتِّعْكُنَّ وَاُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا) 33 ۔ الاحزاب :28) یا معراج میں آپ کے سامنے خمر و لبن (دودھ اور شراب) کے دو برتن پیش کیے گئے تھے، آپ ﷺ نے دودھ کو اختیار فرمایا۔ جبرائیل نے کہا کہ اگر بالفرض آپ شراب کو اختیار فرماتے تو آپ ﷺ کی امت بہک جاتی۔ بہرحال آپ نے صحابہ سے اس معاملہ میں رائے طلب کی۔ ابوبکر صدیق ؓ نے فرمایا کہ یا رسول اللہ یہ سب قیدی اپنے خویش و اقارب اور بھائی بند ہیں۔ بہتر ہے کہ فدیہ لے کر چھوڑ دیا جائے اس نرم سلوک اور احسان کے بعد ممکن ہے کچھ لوگ مسلمان ہو کر وہ خود اور ان کی اولاد و اتباع ہمارے دست وبازو بنیں اور جو مال بالفعل ہاتھ آئے اس سے جہاد وغیرہ دینی کاموں میں سہارا لگے۔ باقی آئندہ سال ہمارے ستر آدمی شہید ہوجائیں تو مضائقہ نہیں درجہ شہادت ملے گا۔ نبی کریم ﷺ کا میلان بھی فطری رحم دلی اور شفقت و صلہ رحمی کی بنا پر اسی رائے کی طرف تھا۔ بلکہ صحابہ کی عام رائے اسی جانب تھی۔ بہت سے تو ان ہی وجوہ کی بنا پر جو ابوبکر نے بیان فرمائیں اور بعض محض مالی فائدہ کو دیکھتے ہوئے اس رائے سے متفق تھے۔ (کما یظہر من قولہ (ۭتُرِيْدُوْنَ عَرَضَ الدُّنْيَا) 8 ۔ الانفال :67) صرح بہ الحافظ ابن حجر و ابن القیم رحمہا اللہ) حضرت عمر اور سعد بن معاذ نے اس سے اختلاف کیا۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ یا رسول اللہ ! یہ قیدی کفر کے امام اور مشرکین کے سردار ہیں ان کو ختم کردیا جائے تو کفر و شرک کا سر ٹوٹ جائے گا، تمام مشرکین پر ہیبت طاری ہوجائے گی، آئندہ مسلمانوں کو ستانے اور خدا کے راستہ سے روکنے کا حوصلہ نہ رہے گا۔ اور خدا کے آگے مشرکین سے ہماری انتہائی نفرت و بغض اور کامل بیزاری کا اظہار ہوجائے گا کہ ہم نے خدا کے معاملہ میں اپنی قرابتوں اور مالی فوائد کی کچھ پروا نہیں کی اس لیے مناسب ہے کہ ان قیدیوں میں جو کوئی ہم میں سے کسی کا عزیز و قریب ہو، وہ اسے اپنے ہاتھ سے قتل کرے۔ الغرض بحث و تمحیص کے بعد حضرت ابوبکر کے مشورہ پر عمل ہوا، کیونکہ کثرت رائے ادھر تھی اور خود نبی کریم ﷺ طبعی رافت و رحمت کی بناء پر اسی طرف مائل تھے اور ویسے بھی اخلاقی اور کلی حیثیت سے عام حالات میں وہ ہی رائے قرین صواب معلوم ہوتی ہے لیکن اسلام اس وقت جن حالات میں سے گزر رہا تھا، ان پر نظر کرتے ہوئے وقتی مصالح کا تقاضا یہ تھا کہ کفار کے مقابلہ میں سخت کمر شکن کارروائی کی جائے۔ تیرہ سال کے ستم کشوں کو طاغوت کے پرستاروں پر یہ ثابت کردینے کا پہلا موقع ملا تھا کہ تمہارے تعلقات قرابت اموال جتھے اور طاقتیں اب کوئی چیز تم کو خدا کی شمشیر انتقام سے پناہ نہیں دے سکتی ابتداءً ایک مرتبہ ظالم مشرکین پر رعب وہیبت بٹھلا دینے کے بعد نرم خوئی اور صلہ رحمی کے استعمال کے لیے آئندہ بہتیرے مواقع باقی رہتے تھے۔ ادھر ستر مسلمانوں کے آئندہ قتل پر راضی ہوجانا معمولی بات نہ تھی۔ اسی لیے اس رائے کو اختیار فرمانا وقتی مصالح اور ہنگامی حیثیت سے حق تعالیٰ کے یہاں پسندیدہ نہ ہوا " مَا كَانَ لِنَبِيٍّ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗٓ اَسْرٰي حَتّٰي يُثْخِنَ فِي الْاَرْضِ " میں اسی ناپسندیدگی کی طرف اشارہ ہے۔ صحابہ ؓ کی یہ ایک سخت خطرناک اجتہادی غلطی قرار دی گئی۔ اور جن بعض لوگوں نے زیادہ تر مالی فوائد پر نظر کر کے اس سے اتفاق کیا تھا ان کو صاف طور پر " تریدون عرض الدنیا " سے خطاب کیا گیا۔ یعنی تم دنیا کے فانی اسباب پر نظر کر رہے ہو، حالانکہ مومن کی نظر انجام پر ہونی چاہیے۔ خدا کی حکمت مقتضی ہو تو وہ تمہارا کام اپنے زور قدرت سے ظاہری سامان کے بدون بھی کرسکتا ہے۔ بہرحال فدیہ لے کر چھوڑ دینا اس وقت کے حالات کے اعتبار سے بڑی بھاری غلطی قرار دی گئی۔ اتنا یاد رکھنا چاہیے کہ روایات سے حضور ﷺ کی نسبت صرف اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ محض صلہ رحمی اور رحم دلی کی بناء پر آپ کا رجحان اس رائے کی طرف تھا۔ البتہ صحابہ میں بعض صرف مالی فوائد کو پیش نظر رکھ کر اور اکثر حضرات دوسری مصالح دینیہ اور اخلاقی داعیہ کے ساتھ مالی ضروریات کو بھی ملحوظ رکھتے ہوئے یہ رائے پیش کر رہے تھے۔ گویا صحابہ کے مشورہ میں کلاً یا جزءً مالی حیثیت ضرور زیر نظر تھی کسی درجہ میں مالی فوائد کے خیال سے " بغض فی اللہ " میں کوتاہی کرنا اور اصل مقصد " جہاد " سے غفلت برتنا اور ستر مسلمانوں کے قتل کیے جانے پر اپنے اختیار سے رضامند ہوجانا صحابہ جیسے مقربین کی شان عالی اور منصب جلیل کے منافی سمجھا گیا۔ اسی لیے ان آیات میں سخت عتاب آمیز لہجہ اختیار کیا گیا ہے۔ حدیث میں ہے کہ لڑائی میں ایک شخص کے سر پر زخم آیا، اسے غسل کی حاجت ہوئی۔ پانی سر پر استعمال کرنا سخت مہلک تھا۔ ساتھیوں سے مسئلہ پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ پانی کی موجودگی میں ہم تیرے لیے کوئی گنجائش نہیں پاتے۔ اس نے غسل کرلیا اور فوت ہوگیا۔ حضور ﷺ کو جب اس واقعہ کی اطلاع ہوئی فرمایا " قَتَلُوہُ قَتَلَہُمُ اللَّہُ " الحدیث اس سے ظاہر ہوا کہ اجتہادی غلطی اگر زیادہ واضح اور خطرناک ہو تو اس پر عتاب ہوسکتا ہے۔ گویا یہ سمجھا جاتا ہے کہ مجتہد نے پوری قوت اجتہاد صرف کرنے میں کوتاہی کی۔
Top