Ashraf-ul-Hawashi - Al-Anbiyaa : 105
وَ لَقَدْ كَتَبْنَا فِی الزَّبُوْرِ مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ اَنَّ الْاَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِیَ الصّٰلِحُوْنَ
وَلَقَدْ كَتَبْنَا : اور تحقیق ہم نے لکھا فِي الزَّبُوْرِ : زبور میں مِنْۢ بَعْدِ الذِّكْرِ : نصیحت کے بعد اَنَّ : کہ الْاَرْضَ : زمین يَرِثُهَا : اس کے وارث عِبَادِيَ : میرے بندے الصّٰلِحُوْنَ : نیک (جمع)
کیونکہ ہمارا وعدہ خلاف نہیں ہوسکتا اور ہم تو زبور میں لوح محفوظ (یا تورت شریف) کے بعد لکھ چکے ہیں کہ (بہشت یا بیت القمدس کی زمین کے مالک میرے نیک بندے ہونگے
12 ۔ ” اذکر “ سے مراد لوح محفوظ ہے اور بعض نے ” توارۃ “ مراد لی ہے اور بعض نے اسے اس کی لفظی یعنی ” نصیحت “ میں لیا ہے۔ (شوکانی) 13 ۔ یہاں ” الارض “ سے کونسی زمین مراد ہے اس میں مفسرین کا اختلاف ہے۔ بعض علما نے بہشت کی زمین مراد لی ہے کیونکہ دوسری آیت میں جنت کے متعلق و اور ثنا الرض فرمایا ہے۔ یعنی جس نے ہمیں زمین یعنی جنت کا وارث بنایا۔ (زمر : 47) گویا یہ اہل ایمان کے حق میں ایک بشارت اخروی ہے جیسے فرمایا ہو العاقبۃ للمتقین۔ (اعراف) مگر اکثر علما نے اسے بشارت دنیوی پر محمول کیا ہے۔ پھر بعض نے کافر قوموں کی سرزمین مراد لی ہے اور بعض نے ” بیت المقدس “ کی فتح۔ چناچہ حضرت عمر ؓ کی خلافت میں یہ پیشگوئی پوری ہوئی۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھئے سورة نور آیت 55 ۔ (شوکانی و ابن کثیر)
Top