Urwatul-Wusqaa - An-Nisaa : 87
اَللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ١ؕ لَیَجْمَعَنَّكُمْ اِلٰى یَوْمِ الْقِیٰمَةِ لَا رَیْبَ فِیْهِ١ؕ وَ مَنْ اَصْدَقُ مِنَ اللّٰهِ حَدِیْثًا۠   ۧ
اَللّٰهُ : اللہ لَآ : نہیں اِلٰهَ : عبادت کے لائق اِلَّا ھُوَ : اس کے سوا لَيَجْمَعَنَّكُمْ : وہ تمہیں ضرور اکٹھا کرے گا اِلٰى : طرف يَوْمِ الْقِيٰمَةِ : روز قیامت لَا رَيْبَ : نہیں شک فِيْهِ : اس میں وَمَنْ : اور کون اَصْدَقُ : زیادہ سچا مِنَ اللّٰهِ : اللہ سے حَدِيْثًا : بات میں
اللہ ہی کی ایک ذات ہے کہ کوئی معبود نہیں ہے مگر صرف وہی ، وہ ضرور تمہیں قیامت کے دن اکٹھا کرے گا ، اس میں کوئی شبہ نہیں اور اللہ سے بڑھ کر بات کہنے میں کون سچا ہوسکتا ہے
اللہ کے سوا کوئی ” الٰہ “ نہیں وہ تم سب کو ” اکٹھا “ کرے گا اور اللہ سے زیادہ کون ” سچا “ ہے : 149: اس چھوٹی سی آیت میں تین باتوں کا ذکر کیا گیا ہے ، تینوں باتوں کا آپس میں گہرا تعلق ہے ، تینوں ہی ایک دوسرے سے زیادہ اہم ہیں ، تینوں ہی اللہ کا بیان بہت لمبا ہے اور تینوں ہی مختلف مقامات میں بیان کی جا چکی ہیں۔ (1) ” اللہ کے سوا کوئی ” الٰہ “ نہیں ہے۔ “ الٰہ کا لفظ قرآن کریم میں ایک سو گیارہ بار استعمال ہوا ہے اور ہر مقام پر اس کا ترجمہ ” الٰہ “ یا ” معبود “ ہی سے کیا گیا ہے اور ” الٰہ “ اور ” معبود “ دونوں ہی عربی زبان کے الفاظ ہیں جن کا ترجمہ اکثر یہی سمجھا جاتا ہے کہ ” عبادت کے لائق “ اس لیے پورا کلمہ لا الٰہ الا اللہ کا ترجمہ کیا نہیں “ اور ان مختلف مقامات کا اگر مطالعہ کیا جائے جہاں جہاں ” الٰہ “ کا لفظ استعمال ہوا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ تقریباً ہر جگہ ” الٰہ “ کے معنی مختلف ہیں ایک نہیں۔ کسی آیت میں ” الٰہ “ کے دو مختلف معنی ہیں اور اگر کسی میں دو سے بھی زیادہ اور سارے آپس میں مختلف ہیں اس طرح اگر ان سارے مختلف معنوں کو اکٹھا کیا جائے تو تقریباً اسی معنوں سے بھی متجاوز ہوتے ہیں اس لیے بلامبالغہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے سارے صفاتی ناموں پر ” الٰہ “ کا لفظ محیط ہے۔ مثلاً قرآن کریم میں ہے : ” بھلا وہ کون ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور تمہارے لیے آسمان سے پانی برسایا پھر اس کے ذریعہ سے وہ خوشنما باغ اُگائے جن کے درختوں کو اگانا تمہارے بس میں نہ تھا ؟ کیا اللہ کے سوا کوئی دوسرا ” الٰہ “ بھی ہے ؟ “ اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی تین صفتوں کا بیان ہوا۔ (1) آسمانوں زمین کو پیدا کرنے والا۔ (2) آسمان سے پانی برسانے والا۔ (3) خوش نما باغ اگانے والا اور ان تینوں پر ” الٰہ “ کا لفظ ایک ہی بار استعمال فرما کر وضاحت فرما دی کہ ” الٰہ “ کے تین مختلف معنی اس آیت میں بیان ہیں یعنی ” کوئی اللہ کے ساتھ آسمان سے پانی برسانے والا ہے ؟ “ تیسرے معنی ہیں ” کوئی اللہ کے ساتھ خوش نما باغ اگانے والا ہے۔ “ غور کرو کہ کیا ” کوئی اللہ کے ساتھ ” عبادت “ کے لائق ہے ؟ “ یا ” کوئی اللہ کے ساتھ ” الٰہ “ ہے “ یا ” کوئی اللہ کے ساتھ ” معبود “ ہے ؟ “ معنی کی کوئی مناسبت ہوتی ہے ؟ اس سے ہر جگہ ” الٰہ “ کا وہی مفہوم و مطلب بیان کرنا جس کا مضمون مطالبہ کرتا ہے زیادہ صحیح نہیں ہوگا ؟ اس طرح قرآن کریم ان آیات میں غور و فکر کرتے جاؤ جہاں ” الٰہ “ کا لفظ استعمال ہوا ہے تو تم پر ” الٰہ “ کے سارے معانی خودبخود واضح ہوتے جائیں گے اور اس طرح ہر مقام پر ” الٰہ “ کے وہ معنی جو مضمون مطالبہ کرے گا لینے سے مطلب و مفہوم میں وہ شیرینی پیدا ہوگی جس کا بیان قلم کے احاطہ سے باہر ہے اور اس بےپایاں دریا میں غوطہ زن ہونے کو بار بار دل چاہے گا۔ کیوں ؟ اس لے ‘ کہ ہر غوطہ میں ایک نیا لعل نکال لاؤ گے جس کی قیمت دنیا ومافیہا سے بہت زیادہ ہے۔ اب غوطہ پر غولہ لگاؤ اور لعل پر لعل نکالتے جاؤ یہ خزانہ ختم ہونے والا نہیں۔ (2) اللہ تم سب کو اکٹھا کرے گا یہ اس آیت کا دوسرا حصہ ہے یعنی وہ جو تمہارا الہ وہ تم سب کو قیامت کے روز اکٹھا کرے گا۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ یہ اکٹھا ہونا کیوں ہے ؟ تاکہ تمہارے رزلٹ کا اعلان کی اجائے۔ تمہارے اعمال کو تمہارے سامنے کھول کر رکھ دیا جائے ۔ تم میں سے انعامات حاصل کرنے والوں میں انعامات تقسیم کیے جائیں۔ تم میں سے مجرموں کو سزا سنائی جائے۔ تم میں سے رعایتی پاس ہونے والوں کو بھی اپنا کیا معلوم ہو۔ یہ مضمون قرآن کریم نے بہت جگہ بیان کیا ہے اور ہر جگہ اس کی افادیت بھی سمجھائی گئی ہے کہ تم کو اکٹھا کیوں کیا جائے گا۔ مثلا قرآن کریم میں ارشاد ہے : یوم یجمعکم لیوم الجمع ذلک یوم التغابن۔ (التغابن : 9) جب جمع ہونے کے دن وہ تم سب کو اکٹھا کرے گا وہ دن ہوگا ایک دوسرے کے مقابلے میں لوگوں کی ہار جیت کا۔ جمع ہونے کا دن کونسا دن ہے ؟ قیامت کا روز قرآن کریم میں جس دن کی سب دنوں سے زیادہ وضاحت کی گئی ہے اور سب کو اکٹھا کرنے سے مراد ہے ۔ تمام ان انسانوں کو بیک وقت زندہ کر کے جمع کرنا جو ابتدائے آفرینش سے قیامت تک دنیا میں پیدا ہوئے ہیں۔ اس دن کو قرآن کریم میں کہیں یوم مجموع اور کہیں یوم مشھود ، فرمایا گیا اور کسی جگہ یوم معلوم اور اس جگہ فرمایا یوم التغابن ، تغابن غبن سے ہے اور اس کے معنی میں بہت وسعت ہے ۔ اس وسعت کے پیش نظر اس کے معنی ہار جیت کے کیے گئے ہیں۔ کیونکہ ہار جیت میں بھی بڑی وسعت ہے اس لیے کہ یہ ہر طرح فتح و شکت پر بولا جاسکتا ہے۔ جیسے دوڑ میں دوڑانے میں ، لڑنے میں لڑانے میں ، کھیلنے میں کھلوانے میں ، چلنے میں چلانے میں ، یعنی جس جگہ چاہو اس کو فٹ کرسکتے ہو پھر دنیا میں تغابن ہوتا ہی رہتا ہے ، لیکن یہ تغابن اس روز کے تغابن سے بالکل مختلف ہے ، اسل تغابن تو روز قیامت ہوگا وہاں جاکر پتہ چلے گا کہ اصل میں خسارہ کس نے اٹھایا اور کون نفع کما لے گیا۔ اصل میں کس کا حصہ کس کو مل گیا اور کون اپنے حصہ سے محروم رہ گیا۔ اصل میں دھوکا کس نے کھایا اور ہوشیار کون نکلا۔ اصل میں کس نے اپنا تمام سرمایہ حیات ایک غلط کاروبار میں کھپا کر دیوالیہ ہوگیا اور کس نے اپنی قوتوں اور قابلیتوں اور مساعی اور اموال اور اوقات کو نفع کے سودے پر لگا کر وہ سارے فائدے حاصل کرلیے جو پہلے شخص کو بھی حاصل ہوسکتے تھے اگر وہ دنیا کی حقیقت کو سمجھنے میں دھوکا نہ کھاتا۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اس روز اہل جنت اہل دوزخ کا وہ حصہ حاصل کرلے جائیں گے جو ان کو جنت میں ملتا اگر وہ جنتیوں کے سے کام کر کے آئے ہوتے اور اہل دوزخ جنتیوں کا وہ حصہ لے جائیں گے جو انہیں دوزخ میں ملتا اگر انہوں نے دنیا میں دوزخیوں کے سے کام کیے ہوتے۔ اس مضمون کی تائید بخاری شریف کی اس حدیث سے ہوتی ہے جو امام صاحب کے کتاب الرقاق میں حضرت ابوہریرہ سے روایت کی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا جو شخص بھی جنت میں جائے گا اسے وہ مقام دکھایا جائے گا جو اسے دوزخ میں ملتا اگر وہ برے عمل کرتا تاکہ وہ مزید شکر گزار ہو اور جو شخص بھی دوزخ میں جائے گا اسے وہ مقام دکھا دیا جائے گا جو اسے جنت میں ملتا اگر اس نے نیک عمل کیے ہوتے تاکہ اسے اور زیادہ حسرت ہو۔ (بخاری کتاب الرقاق) اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ دن ایسا ہے کہ اس میں کسی کے پاس مال و زر تو نہیں ہوگا لیکن اس نے کسی پر جو ظلم کیا ہوگا اس کا حق ادا کرنے کے لیے زرمبادلہ اس آدمی کے اعمال ہی ہوں گے لہذا وہ اس مظلوم کا حق تو اس طرح ادا کرے گا کہ اپنے پلے میں جو کچھ بھی نیکیاں رکھتا ہوگا ان میں سے اس کا تاوان ادا کرے یا مظلوم کے گناہوں میں سے کچھ اپنے اوپر لے لے اور اس طرح اس کا جرمانہ ادا کرے اور یہ مضمون متعدد احادیث میں رسول اللہ نے ارشاد فرمایا ہے ۔ حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا جس شخص کے ذمہ اپنے کسی بھائی کا کسی قسم کا ظلم کا بار ہو اسے چاہیے کہ پہلے اس سے سبکدوش ہو لے کیونکہ آخرت میں دینار و درہم تو ہوں گے نہیں وہاں اس کی نیکیوں میں سے کچھ لے کر مظلوم کو دلوائی جائیں گی یا اگر اس کے پاس نیکیاں کافی نہ ہوں گی تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر ڈال دیے جائیں گے ۔ (بخاری کتاب الرقاق) اس کا ایک مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ دن ایسا ہے کہ اس میں کسی کے پاس مال و زر تو نیں ہوگا لیکن اس نے کسی پر جو ظلم کیا ہوگا اس کا حق ادا کرنے کے لیے زر مبادلہ اس آدمی کے اعمال ہی ہوں گے لہذا وہ اس مظلوم کا حق تو اس طرح ادا کرے گا کہ اپنے پلے میں جو کچھ بھی نیکیاں رکھتا ہوگا ان میں سے اس کا تاوان ادا کرے یا مظلوم کے گناہوں میں سے کچھ اپنے اوپر لے لے اور اس طرح اس کا جرمانہ ادا کرے اور یہ مضمون متعدد احادیث میں رسول اللہ نے ارشاد فرمایا ہے ۔ ٍحضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا جس شخص کے ذمہ اپنے کسی بھائی کا کسی قسم کے ظلم کا بار ہو اسے چاہیے کہ پہلے اس سے سبکدوش ہولے کیونکہ آخرت میں دینار و درہم تو ہوں گے نہیں وہاں اس کی نیکیوں میں سے کچھ لے کر مظلوم کو دلوائی جائیں گی یا اگر اس کے پاس نیکیاں کافی نہ ہوں گی تو مظلوم کے کچھ گناہ اس پر ڈال دیے جائیں گے۔ (بخاری کتاب الرقاق) اس طرح مسند احمد میں حضرت جابر بن عبداللہ بن انیس سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فمرایا کوئی جنتی جنت میں اور کوئی دوزخی دوزخ میں اس وقت تک نہ جاسکے گا جب تک کہ اس ظلم کا بدلہ چکا دیا جائے جو اس نے کسی پر کیا ہو حتی کہ ایک تھپڑ کا بدلہ بھی دینا ہوگا۔ ہم نے عرض کیا کہ یہ بدلہ کیسے دیا جائے گا جبکہ قیامت میں ہم ننگے دھڑ ن کے ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا اپنے اعمال کی نیکیوں اور بدیوں سے بدلہ چکانا ہوگا۔ (مسند احمد) حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے ایک مرتبہ اپنی مجلس میں لوگوں سے پوچھا جانتے ہو مفلس کون ہوتا ہے ؟ لوگوں نے عرض کیا ہم میں مفلس وہ ہوتا ہے جس کے پاس مال ومتاع کچھ نہ ہو۔ آپ نے فرمایا میری امت میں مفلس وہ ہے جو قیامت کے روز نماز اور روزہ اور زکوۃ ادا کر کے حاضر ہوا ہو مگر اس حال میں آیا ہو کہ کسی کو اس نے گالی دی تھی اور کسی پر بہتان لگایا تھا اور کسی کا مال کھایا تھا اور کسی کا خون بہایا تھا اور کسی کو مارا پیٹا تھا پھر ان سب مظلوموں میں سے ہر ایک پر اس کی نیکیاں لے لے کر بانٹ دی گئیں اور جب نیکیوں میں سے کچھ نہ بچا جس سے ان کا بدلہ چکایا جاسکے تو ان میں سے ہر ایک کے کچھ کچھ گناہ لے کر اس پر ڈال دیے گئے اور وہ شخص دوزخ میں پھینک دیا گیا۔ (مسلم) اسی طرح کی بہت سی احادیث کتب احادیث میں موجود ہیں جن سب کا ما حصل یہ ہے کہ حقوق العباد کی کوتاہیاں اتنی بڑی کوتاہیاں ہیں جن کی معافی کی صورت صرف اور صرف یہ ہے کہ جن کے متعلق کوئی کوتاہی ہے اس سے یہ معاف کرانا یا اس کو بدلہ دینا ضروری ہے اور اگر اس کو مان لیا جائے تو یہ سارے معاشرے کے بگاڑ کا ایک ہی بہترین حال ہے جس سے بگاڑ ہوچکا ختم ہوگا اور پھر کبھی بھی بگاڑ پیدا نہیں ہوگا۔ کاش کہ ہمارے علماء مذہبی رہنما اور سیاسی رہنما بھی اس پر ایمان لے آئیں اور ایمان پڑھ کر سر دھننے کا کا نام نہیں بلکہ پڑھے ہوئے کے مطابق عمل کرنے کا نام ہے ۔ اللہ ہم سب کو عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ ایک اور مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ دنیا میں لوگ کفر و فسق اور ظلم و عصیان پر بڑے اطمینان سے آپس میں تعاون کرتے رہتے ہیں اور یہ اعتماد رکھتے ہیں کہ ہمارے درمیان بڑی گہری محبت اور دوستی ہے۔ بدکردار خاندانوں کے افراد ضلالت پھیلانے والے پیشوا اور ان کے پیرو ، چوروں اور ڈاکؤوں کے جتھے ، رشوت خور اور ظالم افسروں اور ملازمین میں گٹھ جوڑ ، بےایمان تاجروں ، صنعت کاروں اور زمینداروں کے گروہ ، شرارت اور خباثت برپا کرنے والی پارٹیاں اور بڑے پیمانے پر ساری دنیا میں ظلم و فساد کری علمبردار حکومتیں اور قومیں سب کا باہمی ساز باز اس اعتماد پر قائم ہے۔ ان میں سے ہر ایک کے ساتھ تعلق رکھنے والے افراد اس گمان میں ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے بڑے اچھے رفیق ہیں اور ہمارے درمیان بڑا کامیاب تعاون چل رہا ہے۔ مگر جب یہ لوگ آخرت میں پہنچیں گے تو ان پر یکایک یہ بات کھلے گی کہ ہم سب نے بہت بڑا دھوکا کھایا ہے ۔ ہر ایک یہ محسوس کرے گا کہ جسے میں اپنا بہترین باپ ، بھائی ، بیوی ، شوہر ، اولاد ، دوست ، رفیق ، لیڈر ، پیر ، مرید اور حامی و مددگار سمجھ رہا تھا وہ دراصل میرا دشمن تھا۔ ہر رشتہ داری اور دوستی اور عقیدت و محبت عداوت میں تبدیل ہوجائے گی۔ سب ایک دوسرے کو برا بھلا کہیں گے۔ ایک دوسرے پر لعنت کریں گے اور ہر ایک یہ چاہے گا کہ اپنے جرائم کی زیادہ سے زیادہ ذمہ داری دوسرے پر ڈال کر اسے سخت سے سخت سزا دلوائے۔ قرآن کریم میں یہ مضمون بھی جگہ جگہ پھیلا ہوا ہے مزید تفصیل کے لیے دیکھیں عروۃ الوثقی جلد اول سورة البقرہ : 167 3۔ اللہ سے بڑھ کر کوئی سچا نہیں۔ زیر نظر آیت جس کی یہاں تفسیر ہورہی ہے اس کا یہ آخری حصہ ہے۔ ہر نبی و رسول اللہ کی طرف سے مبعوث ہوا اور ہر نبی رسول کی مدد اللہ نے فرمائی گویا یہ اللہ کے وعدوں میں داخل تھا اور اللہ سے بڑھ کر وعدے کو سچا اور کون ہوسکتا ہے ۔ رسول اللہ کو اس طرح تسلی دی جارہی ہے کہ آپ سے پہلے جو رسول بھیجے گئے تھے وہ بھی انسان تھے اور ان کی نصرت و تائید کے اور ان کی مخالفت کرنے والوں کو ہلاک کردینے کے جتنے وعدے اللہ نے ان سے کیے تھے وہ اب پورے ہوئے اور ہر وہ قوم برباد ہوئی جس نے ان کو نیچا دکھانے کی کوشش کی اس لیے آپ کو بھی تسلی رکھنی چاہیے کہ اگر یہ لوگ جو آپ کی مخالفت کر رہے ہیں باز نہ آئے تو یقینا ان کا بھی وہی حشر ہوگا جو ان سے پہلوں کا ہوچکا ہے اس لیے کہ تم اللہ کے رسول ہو اللہ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ اپنے رسول کی مدد کرتا ہے۔ چناچہ ایک جگہ ارشاد فرمایا : ان رسولوں کو ہم نے کوئی ایسا جسم نہیں دیا تھا کہ وہ کھاتے نہ ہوں اور نہ وہ سدا جینے والے تھے۔ پھر دیکھ کو کہ آخر کار ہم نے ان کے ساتھ اپنے وعدے پورے کیے اور انہیں اور جس جس کو ہم نے چاہا بچالیا اور حد سے گزر جانے ولوں کو ہلاک کر کے رکھ دیا۔ (الانبیا : 8۔ 9) ایک جگہ ارشاد فرمایا : اور یاد رکھو تمہارے رب کی بات سچائی اور انصاف کے ساتھ پوری ہوگئی۔ اس کی باتوں کا کوئی بدلنے والا نہیں ، وہ سب کچھ سننے والا ، سب کچھ جاننے والا ہے ۔ (الانعام : 115) ایک جگہ ارشاد فرمایا : اور جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام انجام دیے تو ہم انہیں باغوں میں داخل کریں گے جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ، وہ ہمیشہ انہی باغوں میں رہیں گے۔ یہ اللہ کا وعدہ حق ہے اور اللہ سے بڑھ کر بات کہنے میں سچا اور کون ہوسکتا ہے ۔ (النسا : 122) ایک جگہ ارشاد فرمایا : اور وہ کہیں گے شکر ہے اس اللہ کا جس نے ہمارے ساتھ اپنا وعدہ سچ کر دکھایا اور ہم کو جنت کی زمین کا وارث بنا دیا۔ اب ہم جنت میں جہاں چاہیں آجاسکتے ہیں پس کتنا بہترین اجر ہے اچھے عمل کرنے والوں کا ۔ (الزمر : 74) غور کیجیے کہ شیطانی کاروبار بھی سارے کا سارا اس کے وعدوں پر ہی چل رہا ہے پھر افسوس ہے کہ شیطان کے وعدوں پر تو یقین کیا جائے اور رحمن کے وعدوں کو شک و شبہ کی نظر سے دیکھاجائے۔ شیطان کے وعدوں پر انسان کا یقین کیا کہہ دیا ہے ؟ کہہ وہی دیا ہے جو قرآن کریم نے کہا ہے اگر یقین نہیں آتا تو میں آپ کی انگلی رکھتا ہوں آپ اس آیت کو پڑھیں ، ہاں یہی فرمایا ہے۔ یعدھم ویمنیھم وما یعدھم الشیطن الا غرورا۔ (النسا : 120) اور ان لوگوں سے وعدے کرتا ہے اور انہیں امیدیں دلاتا ہے مگر شیطان کے سارے وعدے بجز فریب کے اور کچھ نہیں ہیں۔ اس طرح کی بیسوں آیات قرآن کریم میں موجود ہیں لیکن آپ اس پر ذرا غور کرلیں کیا شیطان کا سارا کاروباری وعدوں اور امیدوں کے بل پر نہیں چل رہا ؟ وہ جب انسان کو انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر کسی غلط راستے کی طرف لیجانا چاہتا ہے تو اس کے آگے ایک سبز باغ پیش کردیتا ہے ۔ کسی کو انفرادی لطف و لذت اور کامیابیوں کی امید ، کسی کو قوی سربلندیوں کی توقع ، کسی کو نوع انسان کی فلاح و بہبود کا یقین کسی کو صداقت تک پہنچ جانے کا اطمینان ، کسی کو یہ بھروسہ کہ نہ خدا ہے نہ آخرت ، بس مرکر مٹی ہوجاتا ہے۔ کسی کو یہ تسلی کہ آخرت ہے بھی تو وہاں کی گرفت سے فلاں کے طفیل اور فلاں کے صدقے میں بچ نکلیں گے۔ غرض جو جس وعدے اور جس توقع سے فریب کھا سکتا ہے اس کے سامنے وہی پیش کرتا ہے اور پھانس لیتا ہے۔ آپ کو تعجب کیوں ہوا ؟ کیا آپ اور میں اس میں شامل نہیں ؟ رہی یہ بات کہ شیطان کے زیادہ وعدے نقد بہ نقد اور دھوکا و فریب ہیں اور اللہ کے زیادہ وعدے ادھار لیکن سچے اور صحیح ہیں۔ یہ جملہ یاد رکھیں کہ اس پر بات انشاء اللہ پھر ہوگی۔
Top