Ashraf-ul-Hawashi - Al-Maaida : 102
قَدْ سَاَلَهَا قَوْمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْ ثُمَّ اَصْبَحُوْا بِهَا كٰفِرِیْنَ
قَدْ سَاَلَهَا : اس کے متعلق پوچھا قَوْمٌ : ایک قوم مِّنْ قَبْلِكُمْ : تم سے قبل ثُمَّ : پھر اَصْبَحُوْا : وہ ہوگئے بِهَا : اس سے كٰفِرِيْنَ : انکار کرنے والے (منکر)
ایسی باتیں کچھ لوگ تم سے پہلے (اپنے پیغمبروں سے) پوچھ چکے ہیں پھر (جب بتادی گئیں تو ان پر نہ چلے)6
6 یہ بنی اسرائیل کی طرف اشارہ ہے کیونکہ ان کا حال یہ تھا کہ اپنے انبیا سے ایک چیز خواہ مخواہ کرید کرید کر دریافت کرتے اور جب وہ حرام قرار دے دی جاتی تو اس سے باز نہ آتے اور فرض قرار دے جاتی تو یحانہ لاتے اس طرح دونوں حالتوں میں نافرمان ٹھہر تے یہ ساری آفت بلا ضرورت کثرت سوال سے آتی اس کی اس روش کی متعدد مثالیں سورة بقرہ میں گزرچکی ہیں بعض روایات میں ہے کہ جب آیت وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا آل عمران 97) نازل ہوئی تو ایک شخص نے کھڑے ہو کر سواک کیا کہ اے اللہ کے رسول کیا حج ہر سال فرض ہے اس نے یہی سوال دو تین مرتبہ کیا مگر آنحضرت ﷺ نے کوئی جواب نہ دیا پھر فرمایا کہ اتر میں نعم (ہاں) کہہ دیتا تو ہر سال فرض ہوجاتا اور تم بجانہ لاتے تو کافر ہوجاتے اس پر یہ آیات نازل ہوئیں : یا یھا الذین امنو الا تسئلو ( ابن کثیر )
Top