Ashraf-ul-Hawashi - Al-Maaida : 77
قُلْ یٰۤاَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِكُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَ لَا تَتَّبِعُوْۤا اَهْوَآءَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَ اَضَلُّوْا كَثِیْرًا وَّ ضَلُّوْا عَنْ سَوَآءِ السَّبِیْلِ۠   ۧ
قُلْ : کہ دیں يٰٓاَهْلَ الْكِتٰبِ : اے اہل کتاب لَا تَغْلُوْا : غلو (مبالغہ) نہ کرو فِيْ : میں دِيْنِكُمْ : اپنا دین غَيْرَ الْحَقِّ : ناحق وَ : اور لَا تَتَّبِعُوْٓا : نہ پیروی کرو اَهْوَآءَ : خواہشات قَوْمٍ : وہ لوگ قَدْ ضَلُّوْا : گمراہ ہوچکے مِنْ قَبْلُ : اس سے قبل وَاَضَلُّوْا : اور انہوں نے گمراہ کیا كَثِيْرًا : بہت سے وَّضَلُّوْا : اور بھٹک گئے عَنْ : سے سَوَآءِ : سیدھا السَّبِيْلِ : راستہ
ے پیغمبر کہہ دے کتاب والوں اپنے دین میں ناحق بات کہہ کر حد سے مت بڑھو12 اور ان لوگوں کے خیال ہر مت چلو اپنے باپ دادوں کے جو تم سے پہلے گمراہ ہوچکے اور بہتیروں کو گمراہ کر گئے اس سیدھے رستہ سے بہک گئے1 ب
12 یہود و نصاری کی الگ الگ تردید کے بعد اب دونوں کو مظاطب فرمایا ہے (کبیر) نصاری نے حضرت مسیح ( علیہ السلام) کے معاملہ میں غلو کیا ہے اور ایک بشر جسے اللہ تعالیٰ نے نبوت بخشی تھی اور اسے اپنی قدرت کا ملعہ کی نشانی دے دی اور ان کی پسلیوں کو ریزہ ریزہ کرڈالا (کبیر، ابن کثیر) یہ حقیقت ہے کہ دین جو بھی خرابی آئی ہے وہ اسی غلو (یعنی راہ اعتدال کو چھوڑنے) کی وجہ سے آتی ہے اسی لیے آنحضرت ﷺ نے مسلمانوں کو باربار نصیحت فرمائی کہ میرے معاملہ میں حد سے نہ بڑھنا اور مجھے بشریت کے مقام سے اٹھاکر خدائی کے مرتبہ تک نہ پہنچا دینا ( ماخوذ از وحیدی) 1 پہلے فرمایا کہ گمراہ ہوئے پھر فرمایا کہ سیدھی راہ سے بہک گئے گویہ دو نو بظاہر ایک ہی ہیں مگر علما نے لکھا ہے کہ اول سے مراد ی ہے کہ وہ گمراہ ہوئے اور دوسرے ضلو سے مراد یہ ہے کہ وہ اب تک اس گمراہی پر جمے ہوئے ہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ پہلی گمراہی سے مراد عقیدہ کی گمراہی ہو اور ادوسری سے عمل کی گمرہی مراد ہو (کبیر )
Top