Ashraf-ul-Hawashi - Al-Maaida : 87
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَاۤ اَحَلَّ اللّٰهُ لَكُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تُحَرِّمُوْا : نہ حرام ٹھہراؤ طَيِّبٰتِ : پاکیزہ چیزیں مَآ اَحَلَّ : جو حلال کیں اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے وَ : اور لَا تَعْتَدُوْا : حد سے نہ بڑھو اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا : نہیں يُحِبُّ : پسند کرتا الْمُعْتَدِيْنَ : حد سے بڑھنے والے
مسلمانوں جو ستھری چیزیں اللہ تعالیٰ نے تم کو حلال کردی ہیں ان کو (اپنے اوپر) حرام نہ کرو اور حد سے بھی) مت بڑھو کیونکہ اللہ حد سے بڑھ جانیوالوں کو پسند نہیں کرتا4
4 نقض عہود کے سلسلہ میں یہود و نصاری سے مباحثہ کے بعد اب اصل موضوع کی طرف پھر تو جہ کی ہے یعنی کہ اوفو ابا لعقود کی تشریح جو اس سورة کا اساسی موضوع ہے (قرطبی۔ کبیر) رہبان نصاریٰ کی مدح کے بعد طیبات کی تحریم سے ممانعت یوں بھی انسب ہے کہ انہوں نے ان با توں کو نیکی میں داخل کررکھا تھا لہذا مومنین کو منع فرمادیا، حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں جو چیز شروع میں صاف حلال ہو اس سے پرہیز کرنا برا ہے یہ دو طرح سے ہوتا ہے یاک زہد سے یہ رہبانیت ہے جو ہمارے دین میں پسند یدہ نہیں ہے اس کی بجائے تقویٰ اختیار کیا جائے یعنی ممنوع چیز کے قریب نہ جائے دوم یہ کہ کسی مباح کام کے نہ کرنے کی قسم کھالے یہ بھی بہتر نہیں ہے اسے چاہیے کہ قسم توڑے اور کفارہ ادا کرے۔ ( از موضح) ایک مرتبہ چند صحابہ حضرت عائشہ ؓ کے پاس آئے اور ان سے دریافت کیا کہ آنحضرت ﷺ جب گھر میں ہوتے ہیں تو کیا کرتے ہیں حضرت عائشہ نے آپ ﷺ کے معمولات بتائے ان میں سے وکئی کہنے لگا کہ میں کبھی گوشت نہیں کھاو گا کوئی کہنے لگا کہ عورتوں سے کوئی واسطہ نہ رکھو گا کوئی کہنے لگا کہ میں رات کو بستر پر نہ سووں گا یعنی ساری رات قیام کروں گا آنحضرت ﷺ کو اطلاع ہوئی تو آپ ﷺ نے فرمایا لوگوں کو کیا گیا ہے کہ وہ اس قسم کی باتیں کرتے ہیں حلان کہ میں یہ سب کام کرتا ہوں لہذا جس نے میری سنت سے بےرغبتی کا مظاہر کیا اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں (بخاری مسلم) اس سلسلہ میں میں اور بھی بہتر سی روایات ہیں جن میں سے بعض میں یہ تصریح ہے کہ یہ آیت ایسے ہی کیس موقع پر نازل ہوئی ( ابن کثیر)
Top