Ashraf-ul-Hawashi - Al-A'raaf : 131
فَاِذَا جَآءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوْا لَنَا هٰذِهٖ١ۚ وَ اِنْ تُصِبْهُمْ سَیِّئَةٌ یَّطَّیَّرُوْا بِمُوْسٰى وَ مَنْ مَّعَهٗ١ؕ اَلَاۤ اِنَّمَا طٰٓئِرُهُمْ عِنْدَ اللّٰهِ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
فَاِذَا : پھر جب جَآءَتْهُمُ : آئی ان کے پاس الْحَسَنَةُ : بھلائی قَالُوْا : وہ کہنے لگے لَنَا : ہمارے لیے هٰذِهٖ : یہ وَاِنْ : اور اگر تُصِبْهُمْ : پہنچتی سَيِّئَةٌ : کوئی برائی يَّطَّيَّرُوْا : بدشگونی لیتے بِمُوْسٰي : موسیٰ سے وَمَنْ مَّعَهٗ : اور جو ان کے ساتھ (ساتھی) اَلَآ : یاد رکھو اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں طٰٓئِرُهُمْ : ان کی بدنصیبی عِنْدَ : پاس اللّٰهِ : اللہ وَلٰكِنَّ : اور لیکن اَكْثَرَهُمْ : ان کے اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
تو جب ان پر کوئی نعمت آتی ! جیسے غلہ کی ازانی صحت کا عمدہ ہونا) تو کہتے یہ تو ہمارا حق ہے9 اور اگر ان پر کوئی آفت آتی جیسے قحط اور گرانی یا بد ہوائی) تو موسیٰ اور ان کے ساتھیوں کی شومی بتاتے10 سنو ان کی شومی (اور بھلائی سب) خدا کی طرف سے ہے11 لیکن ان میں کے اکثر لوگ اصل حال نہیں جانتے12
9 مگر ان شدائد کے بعد رفاہیت اور خوشحالی آتی تو بجائے اس کے اللہ تعالیٰ کا احسان سمجھ کر شکر گزاری کریں لنا ھذہ کہتے یعنی یہ ہمارے حسن انتظام کا نتیجہ ہے۔10 تمام مفسرین کے نزدیک یہاں التطیر بمعنی تشام بمعنی نحوست ہے یعنی وہ کہتے کہ ان کی نحوست سے ہم پر آفت آئی ہے۔11 یعنی اس نحوست اصل سبب تو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور خیر وشر جو کچھ ان کو پہنچ رہا ہے تمام اللہ تعالیٰ کی قضاوقدرت سے ہے جو ان کے اعمال کے سبب ان کے حق میں لکھا ہے جاچکا ہے۔ (کذافی الکبیر)12 کہ خیر وشرسب کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اس نے جو کچھ تقدیر میں لکھا ہے وہ ضرور ہو کر رہتا ہے کسی کی نحوست اور شومی کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے مگر عوام ہیں کہ خیر وشر کو اسباب ظاہری کی طرف نسبت کردیتے ہیں اور یہ سراسر جہا لت ہے۔ ( کبیر ) شاہ صاحب فرماتے ہیں شومی قسمت بد ہے سوا للہ تعالیٰ کی تقدیر سے ہے برائی اور بھلائی کا اثر آخرت میں ہوگا اس کا جواب یہ نہیں فرمایا کہ شومی انکے کفر سے تھی کیونکہ کافر بھی دنیا میں عیش کرتے ہیں۔ اصل حقیقت تھی، سو فرمائی کہ دنیا کے احوال مو قوف بہ تقدیر ہیں۔ (از مو ضح )
Top