Ashraf-ul-Hawashi - Al-A'raaf : 161
وَ اِذْ قِیْلَ لَهُمُ اسْكُنُوْا هٰذِهِ الْقَرْیَةَ وَ كُلُوْا مِنْهَا حَیْثُ شِئْتُمْ وَ قُوْلُوْا حِطَّةٌ وَّ ادْخُلُوا الْبَابَ سُجَّدًا نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطِیْٓئٰتِكُمْ١ؕ سَنَزِیْدُ الْمُحْسِنِیْنَ
وَ : اور اِذْ : جب قِيْلَ : کہا گیا لَهُمُ : ان سے اسْكُنُوْا : تم رہو هٰذِهِ : اس الْقَرْيَةَ : شہر وَكُلُوْا : اور کھاؤ مِنْهَا : اس سے حَيْثُ : جیسے شِئْتُمْ : تم چاہو وَقُوْلُوْا : اور کہو حِطَّةٌ : حطۃ (بخشدے) وَّادْخُلُوا : اور داخل ہو الْبَابَ : دروازہ سُجَّدًا : سجدہ کرتے ہوئے نَّغْفِرْ : ہم بخشدیں گے لَكُمْ : تمہیں خَطِيْٓئٰتِكُمْ : تمہاری خطائیں سَنَزِيْدُ : عنقریب ہم زیادہ دیں گے الْمُحْسِنِيْنَ : نیکی کرنے والے
اور جب ان سے کہا گیا اس گاؤں (بیت المقدس یا اریحا) میں جا کر رہو اور وہاں کی چیزیں جو اس گاؤں میں پیدا ہوتی ہیں) جہاں چاہو اور حطۃ کہو اور دروازے میں جھک کر جاؤ ہم تمہارے گناہ بخش دیں گے (نہیں صرف گناہ بخشے جائیں گے) نیکوں کو اور زیادہ (نعمتیں) ہم دیں گے1
1 یعنی ابھی ایک شہر فتح ہوا ہے آگے یعنی ابھی ایک شہر فتح ہوا ہے آگے سارا ملک ملے گا۔ ( موضح) یا مطلب یہ ہے کہ گناہ معاف کرنے کے علاوہ ان کے درجے بھی بلند ہوں گے ( دیکھئے سو رہ البقرہ آیت 58) اکثر مفسرین کی تحقیق یہ ہے کہ اس قریہ ( شہر) سر مراد ایلتہ ( یا ایلات ہے جو بحر قلزم کے ساحل پر مدین پر مدین اور طور کے درمیان واقع ہے۔ ( کبیر) یہ شہر بحر قلزم کے اند خلیج عقبہ میں اس جگہ واقع تھا جہاں کج این اردن کی بندر گاہ عقبہ پائی جاتی ہے اس کے قریب خلیج عقبہ ہی ہیں یہود یوں نے جو نئی بندر گاہ بنائی ہے اس کا نام نام انہوں نے ایلات ہی رکھا ہے تفہیم القرآن کے حاشیہ نمبر پر لکھا ہے کہ بنی سرائیل کے زمانہ عروج میں یہ شہر بڑاہم تجارتی مرکز تھا۔ حضرت سلیمان ( علیہ السلام) نے بحر قلزم کے جنگی و تجارتی بیڑے کا صدر مقام اسی شہر کو بنایا تھا ،۔ ( ج 2 ص 59)
Top