Ashraf-ul-Hawashi - Al-A'raaf : 55
اُدْعُوْا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَةً١ؕ اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَۚ
اُدْعُوْا : پکارو رَبَّكُمْ : اپنے رب کو تَضَرُّعًا : گر گڑا کر وَّخُفْيَةً : اور آہستہ اِنَّهٗ : بیشک وہ لَا يُحِبُّ : دوست نہیں رکھتا الْمُعْتَدِيْنَ : حد سے گزرنے والے
اپنے مالک کو گڑگڑا کر چپکے چپکے پکارو کیونکہ وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا12
12 یعنی دعاذات و خشوع کے ساتھ ہونی چاہیے اور دعا میں اخفا مستحب ہے کیونکہ اس سے اخلاص پیداہو تا ہے اور ریاکاری راہ نہیں پاتی اور لایحب المعتدین کے معنی یہ ہیں کہ حدود شریعت سے تجاوز کسی صورت بھی اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں اور ایسی چیز کی دعا کرنا ممکن ہو۔ مثلام دنیا میں ہمیشہ زندہ رہوں یا یہ کہ آخرت میں انبیا کا مرتبہ حاصل ہوجائے وغیرہ دعا میں حد سے تجاوز ہے اسی طرح چیخا چلایا جائے اور ادعئیہ یا ثورہ کو چھوڑ کر مقفی کلام اور اشعار پڑھ کر دعا کی جائے وغیر بھی اعتدا فی الد عا میں داخل ہے۔ ( شوکانی وغیرہ) ابو موسیٰ اشعری سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ لوگ بلند آواز سے دعا کرنے لگے آنحضرت ﷺ نے فرمایا لوگو اپنے تئیں آرام دو ، ( یعنی ذرا آہستہ پکا رو) کیونکہ تم کسی گونگے یا غائب کو نہیں پکار ہے ہو بلکہ جسے پکار رہے وہ سننے والا بھی ہے اور تم قریب بھی ہے۔ ( بخاری ومسلم)
Top