Ashraf-ul-Hawashi - Al-A'raaf : 56
وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِهَا وَ ادْعُوْهُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا١ؕ اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ
وَ : اور لَا تُفْسِدُوْا : نہ فساد مچاؤ فِي الْاَرْضِ : زمین میں بَعْدَ : بعد اِصْلَاحِهَا : اس کی اصلاح وَادْعُوْهُ : اور اسے پکارو خَوْفًا : ڈرتے وَّطَمَعًا : اور امید رکھتے اِنَّ : بیشک رَحْمَتَ : رحمت اللّٰهِ : اللہ قَرِيْبٌ : قریب مِّنَ : سے الْمُحْسِنِيْنَ : احسان (نیکی) کرنیوالے
اور جب اللہ کے پیغمبر اور اس کی کتاب کے آنے سے ملک سنور گیا ہو تو اس میں خرابی نہ مچاؤ13 ا اور اللہ کو اس کے عدل سے ڈر کر اور اس کے فضل کی امید رکھ کر پکارو کیونکہ اللہ کی رحمت نیک لوگوں سے نزدیک ہے2
13 یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور شرک کے کام مت کرو کیونکہ اللہ تعالیٰ سے کفر کرنا اور معاضی کا رتکاب ہی فساد فی الارض ہے۔ (شوکانی ) 1 یعنی دعا کرتے وقت اللہ تعالیٰ کو خوف بھی ہو اور دعا کی قبولیت کی دل میں طع بھی۔ ( شوکانی) حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں یعنی اللہ تعالیٰ پر دیر مت ہو اور ناامید بھی مت ہو طمع میں یہ چیز بھی داخل ہے کہ انسان دعا کے بعد مایوس نہ ہوجیسا کہ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا تم میں سے کسی کی دعا اسی وقت تک قبول ہوتی ہے جب تک وہ جلدی نہ کرے ارجلدی یہ ہے کہ انسان یہ کہہ کے میں نے اپنے رب سے دعا کی مگر اس نے قبول نہ کی۔ ( بخاری۔ مسلم)2 اس میں ترغیب ہے اور قریب فصیل کے وزن پر ہے جب یہ مسافت کے لیے آئے تو اس میں تذکیر وتانیث برابر ہوتی ہے اور اگر نسب کے لیے ہو تو بلا اختلاف قریبتہ (مو نث) بولا جاتا ہے ( شوکانی )
Top