Ashraf-ul-Hawashi - Al-Anfaal : 56
اَلَّذِیْنَ عٰهَدْتَّ مِنْهُمْ ثُمَّ یَنْقُضُوْنَ عَهْدَهُمْ فِیْ كُلِّ مَرَّةٍ وَّ هُمْ لَا یَتَّقُوْنَ
اَلَّذِيْنَ : وہ لوگ جو عٰهَدْتَّ : تم نے معاہدہ کیا مِنْهُمْ : ان سے ثُمَّ : پھر يَنْقُضُوْنَ : توڑ دیتے ہیں عَهْدَهُمْ : اپنا معاہدہ فِيْ : میں كُلِّ مَرَّةٍ : ہر بار وَّهُمْ : اور وہ لَا يَتَّقُوْنَ : ڈرتے نہیں
(یہ کافر وہ ہیں) جن سے تو نے عہد کیا پھر ہر بار وہ اپنا عہد توڑ ڈالتے ہیں اور (اللہ تعالیٰ سے) نہیں ڈرتے6
6 اوپر کی آیت میں جب تمام کفار کا یہ وصف بیان فرمایا کہ وہ ظالم ہیں تو اب یہاں بعض کفار کی خصوصی شرارتون کا ذکر فرمایا۔ ( کبیر) وھم لا یتقون، کا دوسرا ترجمہ یہ بھی ہے کہ وہ بد عہدی کے انجام سے نہیں ڈرتے، ان سے مراد خاص طو پر مدینہ منورہ کے یہودی ہیں جن سے مدینہ منورہ پہنچ کر نبی ﷺ نے حسن جوار اور باہمی تعاون کا معاہدہ کیا تھا لیکن اسلام کی بڑھتی ہوئی قوت انہیں ایک نظر نہ بھائی تھی چناچہ کبھی وہ اوس خزرج کے کے درمیان جاہلی عصبیت ابھار کر ان کو آپس میں لڑانے کی کوشش کرتے اور کبھی اسلام کے دشمنوں کی ہتھیاروں سے مدد کر کے معاہدہ باربار خلاف ورزی کرتے اور جب ان سے کہا جاتا تو کہہ دیتے کہ ہمیں یاد نہیں رہا تھا لیکن جوں ہی موقع ملتا پھر کوئی ایسی حرکت کر گزرتے جو معاہدہ کے خلاف ہوتی حتی کہ اس معاہدہ کے ہوتے ہوئے ان کا سردار کعب بن اشرف ( جو بدر میں قریش کی شکست سے انتہائی سیخ پا ہوا تھا) مکہ پہنچا اور وہاں مقتولین کفار بدر کے ہیجان انگیز مرثیے پڑھ کر قریش کے نو جوانوں کو مسلمانوں انتقام لینے کا جوش دلا تا رہا۔ ایسے ہی لوگ ہیں جن کو یہاں سر الدوآبہ ( بد ترین جانور) فرمایا ہے۔ ( از ابن کثیر )
Top