Ashraf-ul-Hawashi - At-Tawba : 58
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّلْمِزُكَ فِی الصَّدَقٰتِ١ۚ فَاِنْ اُعْطُوْا مِنْهَا رَضُوْا وَ اِنْ لَّمْ یُعْطَوْا مِنْهَاۤ اِذَا هُمْ یَسْخَطُوْنَ
وَمِنْهُمْ : اور ان میں سے مَّنْ : جو (بعض) يَّلْمِزُكَ : طعن کرتا ہے آپ پر فِي : میں الصَّدَقٰتِ : صدقات فَاِنْ : سو اگر اُعْطُوْا : انہیں دیدیا جائے مِنْهَا : اس سے رَضُوْا : وہ راضی ہوجائیں وَاِنْ : اور اگر لَّمْ يُعْطَوْا : انہیں نہ دیا جائے مِنْهَآ : اس سے اِذَا : اسی وقت هُمْ : وہ يَسْخَطُوْنَ : ناراض ہوجاتے ہیں
اور (اے پیغمبر) ان میں بعضے ایسے ہیں جو زکوۃ (کے بانٹنے میں) تجھ پر آنکھ مارتے ہیں10 پھر اگر ان کو اس میں سے (جتنا وہ چاہتے ہیں) مل جائے تو خوش ہیں اور اگر ان کو اس میں سے (اتنا) ملے تو بگڑ بیٹھے ہیں1
10 یہ بھی منافقین کا شیوہ تھا کہ صدقات کی تعظیم میں وہ پیغمبر ( علیہ السلام) پر عیب لگانے سے بھی باز نہیں آتے تھے۔ حضرت الشیخ فرماتے ہیں یعنی منجملہ دوسرے اسباب طعن کے ایک سبب یہ بھی تھا نہ کہ صرف یہی ایک سبب تھا بلکہ کہی وجوہ سے طعن کرتے تھے، ( کبیر) چناچہ صدقات تقسیم فرماتے تو کہتے دیکھئے کیسی خویش پر وری ہے اور دوست نوازی ہو رہی ہے۔ مطلب یہ ہوتا کہ ہمیں کیوں نہیں ملتا۔ ) ابن کثیر ) 1 حضرت ابو دسعید خدری ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ کچھ مال غنیمت تقسیم فرما رہے تھے کہ ایک شخص مقداد بن خویصرہ تمیمی ( حرقوص بن دمیر) آیا اور کہنے لگا اے اللہ کے رسول ﷺ ! انصاف سے کام لیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : اگر میں انصاف سے کام نہ لوں تو اور کون لے گا ؟ حضرت عمر ؓ نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ﷺ اگر آپ اجازت دیں میں اس کا سر قلم کر ڈالوں۔ فرمایا : جانے دو اس لیے کہ اس کی نسل سے ایسے پیدا ہوں گے کہ تم ان کی نماز اور ان کے روزے کے مقابلے میں اپن نماز روزے کی حقیر محسوس کرو مگر یہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح تیر شکار سے نکل سے جائے اور اس کے ساتھ خون وغیرہ کی کوئی آمیزش نہ ہو۔ حضرت ابو سعید خدری ؓ کے کہتے ہیں کہ ایسے ہی لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ ( کبیر۔ ابن کثیر) بعض نے رو یات میں ہے کہ ابو الجو اظ منا فق نے بھی اسی قسم کا اعتراض کیا۔ اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا اس سے اور اس کے ساتھیوں سے محتاط رہو کہ یہ منا فق ہیں۔ ( کبیر )
Top