Tafseer-al-Kitaab - Al-Ahzaab : 260
اِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَى الَّذِیْنَ یَسْتَاْذِنُوْنَكَ وَ هُمْ اَغْنِیَآءُ١ۚ رَضُوْا بِاَنْ یَّكُوْنُوْا مَعَ الْخَوَالِفِ١ۙ وَ طَبَعَ اللّٰهُ عَلٰى قُلُوْبِهِمْ فَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
اِنَّمَا : اس کے سوا نہیں (صرف) السَّبِيْلُ : راستہ (الزام) عَلَي : پر الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَسْتَاْذِنُوْنَكَ : آپ سے اجازت چاہتے ہیں وَهُمْ : اور وہ اَغْنِيَآءُ : غنی (جمع) رَضُوْا : وہ خوش ہوئے بِاَنْ : کہ يَّكُوْنُوْا : وہ ہوجائیں مَعَ : ساتھ الْخَوَالِفِ : پیچھے رہ جانیوالی عورتیں وَطَبَعَ : اور مہر لگا دی اللّٰهُ : اللہ عَلٰي : پر قُلُوْبِهِمْ : ان کے دل فَهُمْ : سو وہ لَا يَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
اور (اے پیغمبر، وہ واقعہ بھی یاد کرو) جب ابراہیم نے کہا تھا '' اے میرے رب، مجھے دکھلا دے کہ کس طرح تو (قیامت کے دن) مردوں کو زندہ کرے گا ''۔ فرمایا '' کیا تو ایمان نہیں رکھتا ؟ '' (ابراہیم نے) عرض کیا '' کیوں نہیں، لیکن (بس) دل کا اطمینان درکار ہے ''۔ فرمایا '' تو (اچھا) چار پرندے لے اور ان کو اپنے سے مانوس کرلے۔ پھر ایک ایک پہاڑ پر ان کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دے۔ پھر ان کو پکار، وہ تیرے پاس دوڑتے چلے آئیں گے۔ اور خوب جان لے کہ اللہ زبردست (اور) حکمت والا ہے۔
[179] مطلب یہ ہے کہ ایمان کے درجے تک تو یقین اب بھی حاصل ہے۔ صرف یہ چاہتا ہوں کہ مشاہدے کے بعد اطمینان اور زیادہ ہوجائے۔ اس چیز کو اصطلاح میں عین الیقین کہتے ہیں یعنی وہ یقین جو مشاہدہ عینی سے حاصل ہوتا ہے۔
Top