Asrar-ut-Tanzil - Yunus : 11
وَ لَوْ یُعَجِّلُ اللّٰهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُمْ بِالْخَیْرِ لَقُضِیَ اِلَیْهِمْ اَجَلُهُمْ١ؕ فَنَذَرُ الَّذِیْنَ لَا یَرْجُوْنَ لِقَآءَنَا فِیْ طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر يُعَجِّلُ : جلد بھیجدیتا اللّٰهُ : اللہ لِلنَّاسِ : لوگوں کو الشَّرَّ : برائی اسْتِعْجَالَھُمْ : جلد چاہتے ہیں بِالْخَيْرِ : بھلائی لَقُضِيَ : تو پھر ہوچکی ہوتی اِلَيْهِمْ : ان کی طرف اَجَلُھُمْ : ان کی عمر کی میعاد فَنَذَرُ : پس ہم چھوڑ دیتے ہیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَرْجُوْنَ : وہ امید نہیں رکھتے لِقَآءَنَا : ہماری ملاقات فِيْ : میں طُغْيَانِهِمْ : ان کی سرکشی يَعْمَهُوْنَ : وہ بہکتے ہیں
اور اگر اللہ لوگوں کے نقصان میں جلدی فرماتا جس طرح وہ بھلائی کی طلب میں جلدی کرتے ہیں تو ان کی اجل (عمر کی میعاد) پوری ہوچکی ہوتی سو جو لوگ ہم سے ملنے کی امید نہیں رکھتے ہم ان کو چھوڑے رکھتے ہیں کہ وہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے رہیں
آیات 11 تا 20 اسرار و معارف انسان بھی بہت عجیب سوچ رکھتا ہے بھلایہ بھی کوئی معیار ہے کہ کفار کہہ دیں جب ہم دین قبول نہیں کر رہے تو ہم پر فورا عذاب کیوں نہیں آجاتا۔ اگر اس طرح سے بات بات پر گرفت ہوتی تو انسان ختم ہوچکے ہوتے اور دوسرا اثر اس کا یہ ہوتا کہ انسانی پسنددناپسند کا موقع کون ساباقی رہتا ظاہر ہے یا فورا ایمان لے آتے یا ہلاک ہوجاتے اور اللہ تو قادر ہے جس طرح مانگے بےمانگے بےحساب نعمتیں عطافرمارہا ہے۔ زندگی طاقت دولت اقتدار ہر شے دے رہا ہے چاہے تو آن واحد میں چھین بھی سکتا ہے لیکن اگر ایسا ہونے لگے تو انسان کے لئے اختیار آزمانے کا موقع نہ رہے گا لہٰذا انسان کو پہلے سے طے شدہ وقت تک فرصت ضرور ملتی ہے لیکن کفر اور انکار پر عذاب سے بچ تو نہیں سکتا بلکہ جو لوگ آخرت کا انکار کردیتے ہیں وہ دن بدن برائی اور دوری میں بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں اور یہ بھی عذاب ہی کی ایک صورت ہے ۔ کبھی کافر کی دعا بھی قبول ہوتی ہے اور کافر بلا جواز انکار پر جمے ہوئے ہیں ۔ ایک لمحہ ہر انسان پہ ایسا آتا ہے جب وہ ہر طرف سے مایوس ہوجاتا ہے ۔ کبھی کسی بیماری میں مبتلا ہو کر اور کبھی کسی مصیبت کے شکنجے میں اور پھر جس حال میں ہو ، کھڑابیٹھا یا گراپڑہو۔ ایک غالب اور قادرہستی کو ضرورپکار تا ہے اسکے مزاج میں ہے کہ ایک ہستی ایسی ہے جو غائبانہ پکار بھی سن سکتی ہے میرے حال سے واقف بھی اور اسے بدلنے پر قادر بھی اور وہ تو ہم ہی ہیں پھر اکثراوقات ہم بندوں کی تکالیف دور کردیتے ہیں ۔ یعنی کافر کی دعا بھی قبول ہوجاتی ہے اور اس سے مصیبت ٹال دی جاتی ہے ۔ لیکن کفر کی مصیبت یہ ہے کہ شکر کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا بلکہ جان چھوٹی تو اس ہستی ہی کو بھول گئے اور مختلف ظاہری اسباب کا نتیجہ اور اپناکمال سمجھ بیٹھتے ہیں ۔ یہ بھی اللہ کی طرف سے بہت بڑی سزا ہے ۔ اگرچہ وہ اپنے شان کریمی سے دعاضرورقبول کرتا ہے اور جب بھی کوئی آدمی ہر طرف سے مایوس ہو کر صرف اسی کو پکارے تو اس کی شان سے بعید ہے کہ اس کی دست گیری نہ کرے خواہ ایسا کرنے والا کافر ہی کیوں نہ ہو۔ تو ثابت ہوا کہ دعا محض خانہ پری نہیں ہونی چاہیئے بلکہ دل کی گہرائی سے اس یقین کے ساتھ مانگی جائے کہ سوائے اس ذات کے کوئی دوسرا اس قابل ہی نہیں جس کے آگے دست سوال دراز کیا جائے تو ضرور قبول ہوتی ہے اور مومن کی دعاتو کبھی رد نہیں ہوتی جبکہ ہر طرف سے مایوس ہوکرمانگنے والا کافر بھی ہو تو اس کی دعا سن لی جاتی ہے ۔ مگر کافر کو دعا کے بعد بھی اللہ کا احسان یاد نہیں رہتا اور وہ شکر کرنے کی بجائے اور اکڑدکھاتا ہے اور یہ اکڑدکھانا ہی اسے بہت بھاتا ہے وہ خوش ہوتا ہے کہ میں ٹھیک کررہا ہوں ۔ یہ اس کے کفر باعث اسے سزاملتی ہے کہ غلط کام کو درست سمجھنے لگتا ہے اور بالآ خرتباہ ہوجاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ ظلم کے باعث کتنی اقوام ہلاکت و بربادی کے گڑھے میں گئیں ان کے نشان تک مٹ گئے اور یہ سب کچھ فورا نہیں ہوا ان کے پاس بھی انبیا تشریف لائے اور انھیں روزروشن کی مانند واضح ثبوت اور دلا ئل پیش کئے مگر وہ نہ مانے اور ظلم و زیادتی پہ کمربستہ رہے تو آخر تباہ کردیئے گئے کہ اللہ کی طرف سے بدکاروں کو یہی سزا ملتی ہے۔ تم بھی تو اے لوگو ! یقینا انہی کے بعد زمین پر وارد ہوئے ہو اور انہی کے جانشین ہو تو تم پر بھی وہی قانون لاگوہوناعین عقل کا تقاضا ہے لہٰذا ایسا ہی ہوگا تمہارے کردار اور تمہارے اعمال کو دیکھا اور پر کھاجائے گا کہ تم کس سمت سفر کرتے ہو اور جس طرف عملی طور پر بڑھو گے اسی انجام کو پالوگے۔ قرآن اللہ کا کلام ہے انسان اس میں کمی بیشی نہیں کرسکتا اب کفار کا حال دیکھو کہ اللہ کی عظمت اور اس کے سامنے جوابدہی سے انکار نے ان کی عقلوں کو اندھا کردیا ہے اور یہ اللہ کے کلام کی حیثیت ہی کو سمجھنے میں کامیاب نہیں ہوپا رہے بلکہ کہتے ہیں اسے تبدیل کیا جائے اور یا اس کی جگہ دوسرا قرآن لایاجائے جس میں ہمارے رواجات اور ہمارے اجداد کی تردید نہ کی گئی ہو۔ بھلاصدیوں کی رسومات کو ہم کیونکر غلط ماننے لگیں جبکہ ہمارے باپ دادا بھی انہی پر عمل کرتے تھے گویا انھوں نے کتاب اللہ کو آپ ﷺ کی تصنیف سمجھ رکھا ہے ۔ انھیں بتادیجئے کہ اپنی ساری شان و شوکت اور نبوت و رسالت بلکہ جو قرآن فرماتا ہے جو حکم وحی الہی سے آتا ہے میں اپنی پوری کوشش اور پورے خلوص کے ساتھ اس کی اطاعت کرتا ہوں۔ شیعہ کا دعوے عقلابھی محال ہے یاد رہے جس طرح قرآن کے الفاظ میں تبدیل جائز نہیں اسی طرح اس کے معانی تبدیل کرنا بھی تحریف قرآن ہی کا ایک انداز ہے لہٰذا معنی وتشریح سنت اور حدیث کے مطابق جائز ہوگی اور یہ ممکن ہی نہیں بلکہ محال عقلی بھی ہے کہ جن حضرات نے یہ آیات خود نبی کریم ﷺ سے سنی تھیں ان کے سامنے قرآن کی عبارت تبدیل کردی گئی اور وہ تبدیل شدہ کتاب پر راضی ہوگئے ۔ حالا ن کہ چودہ سو سال بعد تک پھر اس میں کوئی حرف تو کیا زیر برتک تبدیل نہ ہوسکی ۔ لہٰذا قرآن میں تبدیلی جائز بھی نہیں اور الفاظ کا بدلنا ممکن بھی نہیں ہاں ! جو لوگ معنی اپنی مرضی کا پہنا کر بعض فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں انھیں بھی یوم حساب کی شدید گرفت سے ڈرنا اور توبہ کرنا ضروری ہے ۔ ورنہ نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں اگر میں بھی ایسا کروں تو یہ میرے رب کی نافرمانی ہوگی جس کا نتیجہ آخرت کا اور حشر کے دن کا عذاب ہے اور میں اس سے ڈرتا ہوں ۔ اگرچہ آپ ﷺ کا ایسا کرنا ناممکن تھا مگر ایسا کرنے والوں کو یہ یقین بھی کرلینا ضروری ہے کہ کوئی بھی اس کی سزا سے نہ بچ سکے جو اللہ سے دوری دنیا میں تباہی اور آخرت میں ہلاکت ہے۔ نبوت اور وحی کی صداقت کی سب سے بڑی عقلی دلیل قبل لعثبت کی عمر شریف ہے فرمایا میرے حبیب ! ان سے فرمائیے کہ میں تم میں کہیں سے اچانک نہیں آیا ہوں بلکہ چالیس برس کا طویل عرصہ بچپن لڑکپن اور جوانی تم لوگوں میں بسر کی ہے کہا کبھی کوئی ایسی بات یا ایسا کام یا ایسا دعوی میں نے پہلے بھی کیا ہے ؟ یا اس طویل عرصے میں کبھی کسی معاملہ میں غلط بیانی ثابت کرسکتے ہو ؟ یا کسی کاہن یا راہب یا پادری سے کچھ سیکھا ہے ؟ یا کسی طرح کی دولت واقتدار کا لالچ کیا ہے ؟ جب یہ سب کچھ نہیں تو کیا معاذ اللہ اب میں اپنی عمر کے اس پختہ ترحصے میں اللہ پر جھوٹ بولوں گا ؟ ہرگز نہیں ! اگر اللہ کی طرف سے وحی نازل نہ ہوتی تمہیں آیات الٰہیہ سناناتورہا ایک طرف اس موضوع پر تم سے بات تک نہ کرتا ۔ اگر ذرا بھی عقل سے سوچوتویہ بات آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے ۔ اور اس کے بعد یہ بھی جان لو کہ اللہ کریم کے ذمہ جھوٹی بات لگانا جو اس نے فرمائی نہ ہو اور اس کے حوالے سے کہنا یا اس کی ارشاد فرمائی ہوئی بات کا انکار کرنا دونوں ہی بہت بڑے ظلم ہیں اور ان کا ارتکاب کرنے والا بہت ہی بڑاظالم اور قانون الٰہی یہ ہے کہ جرم کرنے والا کبھی فائدہ حاصل کرنے والا نہیں ہوتا ۔ یہ بھی ثابت ہوا کہ کسی بھی شخص کی اہلیت و استعداد پہ سب سے بڑا عقلی گواہ اس کا کردار ہے اور اس کی گزشتہ زندگی ہے ۔ غیر اللہ کی عبادت عقلا بھی درست نہیں ذرا ان کی عقل کا کمال دیکھئے کہ رسالت ونبوت اور وحی الٰہی کے لئے تو عقل دلیل طلب کی جارہی ہے اور دوسری طرف غیر اللہ عبادت میں مصروف ہیں ۔ بھلا یہ کون سی عقلمندی ہے کہ جو خد مخلوق ہے اپنی ذات اور اپنی صفات میں اپنے خالق کی محتاج ہے وہ کسی دوسرے کے لئے کیا سنوار سکتی ہے ؟ یا ایسی ذات کسی کا کیا بگاڑ سکتی ہے ؟ کچھ بھی تو نہیں اور یہ بات عقلا بھی محال ہے کہ اپنے لئے تو کسی اور کا محتاج ہو اور وہی وجود دوسروں کے لئے معبود قرار پائے ۔ یاد رہے کہ نفع کی امید پر یا نقصان کے خوف سے کسی کی اطاعت یا اظہارعجزہی عبادت کہلاتا ہے اور اسباب دنیا کو اللہ کے حکم کے مطابق اختیار کرنا اللہ کی عبادت ہے کہ اطاعت اسی کی ہے مگر اس کی اطاعت کے خلاف اسباب یاذوات پہ بھروسہ ان کی عبادت تصور ہوتا ہے اور جب یہ بات عقلابھی ثابت نہیں کرسکتے تو کہتے میں یہ خود تھوڑے ہی ہماری ضروریات پوری کرتے ہیں بلکہ یہ تو اللہ کی بارگاہ میں ہمارے سفارشی ہیں اور وہاں سے ہمیں نعمتیں دلواتے ہیں ۔ آپ ان سے فرمائے کہ تم لوگ اللہ کریم کو ایسی ہستیوں کا پتہ دیتے ہو جن کا وجود اس کے علم میں ہرگز نہیں یعنی اس کا علم دائمی اور حاضر ہے جو ہوچکا ہے جو ہورہا ہے اور جو ہوگا سب اس کے علم میں حاضر ہے اور تنکے اور ہر ذرے اور ساری کائنات کی چھوٹی سے چھوٹی شے کو وہ خود جانتا ہے ۔ بھلاجس شے کا وجود عالم میں تو کیا اس کے علم میں بھی نہیں اس کی کیا حیثیت ہے کچھ بھی تو نہیں یہ محض تمہاری گمراہی ہے ۔ اس کی ذات ان تو ہمات سے بہت ہی بلند اور ہر طرح کی کمزوری سے پاک ہے کسی طرح بھی اس کی ذات یا صفات میں کوئی بھی شریک نہیں ہوسکتا اور عقلا بھی عبادت کی مستحق صرف اور اکیلی وہ ذات ہے جو دیتی سب کو ہے مگر کسی سے کچھ لینے کی احتیاج سے پاک ہے۔ انسانوں کی دوجماعتیں یافرقے یاقومیں سارے انسان ایک ہی طریقے پر تھے ایک ہی قوم تھے مگر یہ کفروشرک ہی کی مصیبت تھی جس نے انھیں تقسیم کردیا ۔ گویا انسانی تقسیم رنگ و نسل یا جغرافیائی بنیاد پر درست نہیں مومن جہاں کہیں بھی ہے وہ اسی ایک جماعت کا فرد ہے اور دوسرا فرقہ کافر ہے خواہ کیسا ہو کہیں ہو ” الکفرملۃ واجدۃ “ سارے کا سارا کفر ایک ہی فرقہ ہے ۔ لہٰذا دنیا میں صرف دوقومیں مومن اور کافر اس سے کمتردرجے پر مثلا علاقائی تقسیم انسبی اعتبار سے قوم شمار کرنا محض کسی فرد کی پہچان تو ہوسکتی ہے اس کی قوم نہیں ۔ پنجابی یا پٹھان قوم نہیں قوم مسلمان ہے اور اسی بنیادپر روئے زمین کے مسلمان ایک دوسرے کے بھائی ہیں ۔ یہ توحید باری پہ اتحادکو چھوڑ کر مختلف عقائد ونظر یات اور کفروشرک پہ جمع ہونا تو بنی آدم کو کب کا تباہ کرچکا ہوتا مگر اللہ نے پہلے سے سب انسانوں کے لئے فرصت ومہلت مقرر فرمادی ہے لہٰذا وقت معین تک ہر کسی کو مہلت دی جاتی ہے ورنہ بات تو فورا بھی طے ہوسکتی تھی اور اب جس کی مہلت تمام ہوتی ہے کم ازکم اسے تو یقینی صورتحال کا پتہ چل جاتا ہے ایک روزسب یکجا بھی دیکھ لیں گے۔ پھر یہ کہہ دیتے ہیں کہ اگر آپ سچے رسول ہیں تو ہمارے طلب کردہ معجزات ان پر کیوں ظاہر نہیں ہوتے تو فرمایئے یہ محض جہالت کی بات ہے اس میں کوئی وزن نہیں اس لئے کہ آپ کی عمر مبارک اور حالات بہت بڑا معجزہ ہیں کہ پورے معاشرے میں ایک بچہ ایک لڑکا اور صرف ایک فرد قبل نبوت بھی ایسا ہو جس کے کردار پر کہیں انگلی نہ رکھی جاسکے پھر قرآن حکیم کتنا بڑا معجزہ ہے جس نے وہ حقائق بیان فرمائے جو صرف اسی کی شان ہے دوسرا کوئی ان پر زبان کھولنے کی جرأت نہ کرتا ۔ علاوہ ازیں دیگر بیشمار معجزات تو کیا انکی وجہ سے تم لوگوں کی ہدایت نصیب ہوئی اگر نہیں ہوسکی اور تم نے ان تمام کو جادو وغیرہ کہہ کر ٹھکر ادیاتو کیا ضروری ہے کہ جو تم کہو وہی معجزہ بھی ظاہر ہوجائے ۔ بظاہرتو اس کی ضرورت نہیں اور یقینی بات کہ ایسا ہو بھی جائے جائے تو کیا خبر کہ اس بات کا تعلق تو غیب کے علوم سے ہے کہ کب کیا ہوگا ؟ اور غیب جاننا اللہ کریم کا وصف ہے لہٰذا انتظار کرو اور دیکھو پر دئہ غیب سے کیا ظاہر ہوتا ہے ۔ میں بھی تو تمہارے ساتھ منتظر ہوں۔ لہٰذا خاص کرامات کی طلب شیخ سے مناسب نہیں یہ الگ بات ہے کہ بیشمار کرامات کا ظہور اللہ پاک کی طرف سے ہوتا رہے اور سب سے بڑی کرامت یہ ہے کہ خود بھی آپ ﷺ کی اطاعت پہ کاربند ہو اور جو ساتھ لگے اس کو بھی کاربند کرے۔
Top