Asrar-ut-Tanzil - Yunus : 21
وَ اِذَاۤ اَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّنْۢ بَعْدِ ضَرَّآءَ مَسَّتْهُمْ اِذَا لَهُمْ مَّكْرٌ فِیْۤ اٰیَاتِنَا١ؕ قُلِ اللّٰهُ اَسْرَعُ مَكْرًا١ؕ اِنَّ رُسُلَنَا یَكْتُبُوْنَ مَا تَمْكُرُوْنَ
وَاِذَآ : اور جب اَذَقْنَا : ہم چکھائیں النَّاسَ : لوگ رَحْمَةً : رحمت مِّنْۢ بَعْدِ : بعد ضَرَّآءَ : تکلیف مَسَّتْھُمْ : انہیں پہنچی اِذَا : اس وقت لَھُمْ : ان کے لیے مَّكْرٌ : حیلہ فِيْٓ : میں اٰيَاتِنَا : ہماری آیات قُلِ : آپ کہ دیں اللّٰهُ : اللہ اَسْرَعُ : سب سے جلد مَكْرًا : خفیہ تدبیر اِنَّ : بیشک رُسُلَنَا : ہمارے فرشتے يَكْتُبُوْنَ : وہ لکھتے ہیں مَا تَمْكُرُوْنَ : جو تم حیلہ سازی کرتے ہو
اور جب ہم لوگوں کو تکلیف پہنچنے کے بعد آرام (کا مزہ) چکھاتے ہیں تو فوراً ہی ہماری آیات کے بارے حیلے کرنے لگتے ہیں فرمادیجئے کہ اللہ سب سے جلد تدبیر کرنیوالے ہیں۔ جو حیلے تم کرتے ہو بیشک ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) اسے لکھتے جاتے ہیں
آیات 21 تا 30 اسرار و معارف کفر اور نافرمانی سے دل تباہ ہو کر ان کی سوچ الٹ جاتی ہے لہٰذا ایسے لوگوں کو سفر حیات میں جب کبھی تنگی اور تکلیف سے آرام ملتا ہے مشکلات کے بعد جب کسی میدان سے گزرنے کے لمحے آتے ہیں جو سراسر رحمت الٰہی کا مظہرہوتا ہے تو بجائے شکر کرنے کے الٹا اللہ کے دین اور اس کے احکام کو ناکام بنانے کے حیلے سوچنے لگتے ہیں ۔ ان نادانوں کو بتادیجئے کہ تم آخرمخلوق ہو عاجز ہو جس طرح تمہاری ذات محدود ہے ۔ صفات بھی محدود ہیں ۔ سوچ اور فکر تک مخلوق ہے۔ بھلاجس خلاق عالم نے تمام جہانوں کی تدبیر فرمادی ۔ اس کی تدبیر کو تم کیا ردکرسکوگے کہ تم توچندے دنیا میں ہو نہ تھے نہ رہوگے اور اس کی قدرت کاملہ تو ہمیشہ سے تدبیرجہاں کرچکی ہے ہاں ! ایک یہ نتیجہ ہے اور صرف اتناہی اثر ہے کہ جو کچھ تم حیلے حوالے کرتے ہو ، اعمال کے لکھنے والے فرشتے انھیں لکھتے رہتے ہیں اور روز محشروہ خود تمہارے لئے ہی مصیبت کا سبب بنیں گے۔ تمھیں اگر کوئی بھی نقش حیات اس کا پتہ نہیں دے سکتا حالا ن کہ ہر ذرہ اور ہر تنکا اس کی عظمت پہ گواہ ہے توآو ! تمہیں اس سے واقف کرادیں کسی ایسے لمحے کو یاد کرو جب آرام و آسائش میں اچانک موت کا دہشتناک سناٹا تمہارے گرد چھائے اور اس سے بچنے کا کوئی ظاہری سبب نظرنہ آرہا ہو تو تمہیں کسی ایسی ہستی کا خیال آتا ہے جو تمہارے حال سے واقف بھی ہے اور جو بچانے پہ قادر بھی ۔ یقینا تم دل سے کہہ اٹھتے ہو کہ آج بچالے تو زندگی بھر شکر گزار رہیں گے۔ مثلا جیسے تم اپنے کاروباری سفروں میں سمندروں میں سفر کرتے ہو اور موافق ہوا میں مزے لے رہے ہوتے ہو کہ اچانک ہوارخ پھیرلیتی ہے اور اس میں تیزی آنے لگتی ہے حتی کہ سمندر بپھر کرتہہ وبالا ہونے لگتا ہے اور پہاڑوں جیسی موجیں کشتیوں اور جہازوں کو تنکوں کی طرح اٹھا اٹھا کرپٹکنے لگتی ہیں اور تمہیں کسی طرف کوئی ا مید کی کرن نظر نہیں آتی تو تم ایک غائبانہ طاقت کو بےاختیار پکار اٹھتے ہو تمہارے اندر سے آوازآتی ہے کہ اے میرے مالک ! مجھے بچالے ۔ وہی مالک ہی تو اللہ ہے کہ تم کہہ رہے ہوتے ہو آج اس مصیبت سے بچالے کہ یہاں تو قبر بھی نہ بنے گی اور اہل و عیال سے دورمال و دولت سمیت غرق ہوجائیں گے ۔ اگر یہاں سے بچالے تو ہمیشہ تیرا شکر ادا کرتے رہیں گے مگر جب طوفان تھم جاتے ہیں اور اللہ کی قدرت کاملہ تمہیں سلامتی سے کنارے لگا دیتی ہے ۔ گھر اور بچوں میں پہنچتے ہو تو پھر وہ بات بھول کر اللہ کی زمین پر ظلم اور فساد مچاتے ہو ۔ ایمان سے اتکار اور اتباع شریعت سے محرومی کا ہر قدم فسادفی الا رض ہے خواہ وہ کسی صورت میں ہو۔ لیکن اے اولاد آدم علیہ اسلام اچھی طرح جان لو تمہاری کسی برائی سے نہ اللہ کی ذات کا کوئی نقصان ہوتا ہے نہ اس کے نظام میں کوئی رکاوٹ پڑتی ہے بلکہ تمہارے گناہ اور تمہاری نافرمانی کے نتیجے میں خود تم پر ہی تباہی آتی ہے ۔ یہ چندروزہ حیات بھی مختلف مشکلات سے متاثر ہوکردشوار تر ہوجاتی ہے اور یہ تو ہے ہی بہت تھوڑی سی ۔ پھر تم سب کو اللہ ہی کی بارگاہ میں پلٹنا ہے ، لوٹ کر وہیں حاضر ہونا ہے اور وہاں تمہاری ہر چھوٹی بڑی خطا تمہارے سامنے رکھ دی جائے گی کہ یہ تمہارا وہ عمل ہے جو تم نے وارعمل میں کیا ۔ اب یہاں دار جزا ہے لہٰذا اس کا نتیجہ بھگتو۔ دنیا کی زندگی کا نقشہ تو تمہارے روبرو ہے ۔ دیکھتے ہو جب باریش برستی ہیں بہارآتی ہے تو زمین ایک گلستاں بن جاتی ہے اور طرح طرح کے سبزے چارے پھول اور پھل روئے زمین کو ایک وسیع دسترخوان بنا دیتے ہیں اور انسان حیوان سب عیش کرتے ہیں طرح طرح کی نعمتیں کھاتے ہیں اور بیچارے یہ سوچنے لگتے ہیں کہ اب تو موج ہی موج ہے بڑے عیش بن گئے کہ اچانک اللہ کی تقدیر اس پہ جاری ہوتی ہے اور اکثر اوقات فصلیں پکنے سے پہلے درخت پھل لانے سے بیشتر اور سبزہ عمر طبعی کو پانے سے قبل بھی طوفانوں کی نذر ہوجاتے ہیں۔ کسی شب ظلمتوں میں یا کسی دن کے اداس لمحوں میں جب طوفان تھمتا ہے تو ہر چیز تباہ ہوچکی ہوتی ہے ، جیسے کل یہاں کچھ بھی تو نہ تھا یا جیسے کبھی یہ زمین آبادہی نہ تھی۔ انسانی کردار میں تبدیلیاں یہ زندگی کی مثال انسانی کردار کی عکاس بھی ہے کہ اگر دل میں نقص پیدا ہوجائے یعنی اس کا خلوص مجروح ہوجائے تو بڑے سے بڑاصوفی اور صاحب حال بھی یوں تباہ ہو سکتا ہے جیسے اس نے کبھی ایمان بھی قبول نہ کیا ہو۔ لہٰذا بلندی منازل پہ تفاخر کی بجائے تشکر لازم ہے ۔ جن لوگوں کو غور وفکر کی عارت ہو ، جو ہر انسان کو ہونی چاہیئے تو ان کے لئے تو بات بہت واضح انداز میں بیان کردی جاتی ہے ۔ ہاں ! جو بدنصیب فکر فرداہی سے غافل ہوں انھیں کیا فائدہ ہوگا ؟ اللہ کریم نے انسان کو پسند کا اختیار دے کر چھوڑ نہیں دیا حالانکہ اگر ایسا ہوتا تو بھی بالکل درست ہوتا کہ وہ اپنی پسند سے اپنا راستہ بنالیتا اور دنیا میں انقلابات سے سبق حاصل کرکے تخلیقات سے اس کی عظمت کو بھانپ کر اطاعت کا راستہ اختیار کرتا اور اللہ کے عذاب میں گرفتار ہونے سے خود کو بچاتا ۔ اس کے باوجود وہ اتنا کریم ہے کہ انسانوں کو سلامتی کے گھر کی طرف یعنی جنت کی طرف جہاں ہر طرح کی سلامتی ہے بےحدوحساب نعمتیں ہیں ہمیشہ ہے انبیاء مبعوث فرما کر اپنی کتب نازل فرما کر اور آپ ﷺ کی بعثت سے ساری انسانیت کو دعوت عام کردی ۔ اپنی کتاب کو ہمیشہ کے لئے دنیا میں محفوظ رکھنے کا ذمہ لے لیا اور ہمیشہ ایسے لوگ بھی رکھے گا جو محض اللہ کی خاطر اللہ ہی کی طرف دعوت دیتے رہیں گے اور جسے چاہے اسے اس راہ پرچلنے کی توفیق بھی عطا کردیتا ہے اور یہ اللہ کریم کی پسند انسان کے قلبی فیصلے پہ ہوتی ہے جیسا کہ اس نے خود فرمادیا ہے یھدی الیہ ینیب ۔ کہ خلوص دل سے جو ہدایت طلب کرے جس کے اندریہ فیصلہ ہوجائے کہ مجھے اپنے مالک کو پانا ہے تو ان کی پوری پوری رہنمائی بھی فرماتا ہے اور راستے پر چلاتا بھی ہے ۔ یادرکھو نیکی کا بدلہ ہر حال میں تمہارے اعمال سے کئی گنابڑھا کردے گا اور پھر اسے بدلہ اور اجری شمار فرما کر اپنی طرف سے اس پر زیادہ دے گا جس کا تم اندازہ نہیں کرسکتے کہ تمہارے عمل کے بدلے کو بڑھا کر کئی گناکر اعداد و شمار کی گرفت سے بہت بالا ہے اور ان کے چہرے خوشی سے دمک رہے ہوں گے کوئی غم کا سایہ ہوگا نہ پر یشانی کا اثر ۔ ایسے ہی لوگ جنت کے باسی ہیں جو وہاں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ وہ تو بدکاروں سے بھی کرم کا سلوک کرتا ہے کہ نافرمانوں کو اتنی ہی سزادے گا جس قدران کی نافرمانی پہ بنتی ہوگی لیکن یہ یادرکھو نافرمانی کس کی ہے اس لئے چھوٹا گناہ بھی اس نسبت سے بہت بڑا ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی نافرمانی تو ہے لہٰذاذلت ورسوائی کا اثر کہ کافروں کے چہرے سیاہ کردے گا اور پتہ چل جائے گا کہ اللہ کے سوا اس مصیبت میں کوئی کام نہ آسکے گا نہ کوئی اس عذاب سے بچاسکے گا ۔ ان کا حال یہ ہوجائے گا جیسے انسانی چہرہ تاریک رات کے پردوں سے ڈھانپ دیا گیا ہو یہ روسیاہ دوزخ میں رہیں گے اور ہمیشہ رہیں گے۔ روز محشرتو مشرکین بھی جمع کئے جائیں گے اور ان کے بت بھی اور ارشاد ہوگا اپنی جگہ پر رہو کہ عرصہ محشر میں دنیا کے رشتے تو ختم ہوچکے ہوں گے۔ یقاتو صرف اس ناطے کو ہوگی جو اللہ کے نام پر بنے گا لہٰذا اب نہ تم پجاری رہے نہ یہ تمہارے دیوتا اپنی اپنی جگہ جو ابدہی کے کے لئے رک جاؤگے توبت بھی چلا اٹھیں گے کہ نادانو ! ہمیں تمہاری پوجا اور عبادت سے کیا غرض ؟ ہم تو محض پتھر تھے ہمیں تو یہ شعور بھی نہ تھا کہ دعوت دنیا تو کجاجو تم ہماری پوجا کرتے تھے اس کا پتہ تو چلتا کوئی رنج و راحت کا اثرہوتا مگر کچھ بھی تو نہ تھا ہمارا اللہ خود گواہ ہے کہ ہمیں تمہاری اس حرکت کی خبرتک نہ تھی مالک جانتا ہے جس ہمیں عقل وشعورہی سے بیگانہ رکھا۔ بتوں کے پاس یہ عذرتوہوگا اس کے باوجود دوزخ میں جلنے کا حکم ہوگا کہ مشرکین پر آگ جلانے کا ایندھن بنیں گے ۔ اللہ کے حکم کے خلاف اپنی بات منوانا مگر جو انسان اللہ کے حکم کے خلاف اپنی بات منواتے اور اپنی اطاعت کر واتے ہوں ۔ حکمران ہوں یا سیاستدان پیر ہوں یامولوی اساتذہ ہوں یا والدین کسی کے پاس کوئی معقول عذر بھی نہ ہوگا لہٰذا سب کی ذمہ داری ہے کہ اللہ کی اطاعت پہ چلائیں اور اللہ کی طرف دعوت بھی دیں اور رہنمائی بھی کریں ۔ کہ اس میدان میں ہر کوئی اپنے اعمال کو پالے گا اور ان کی اصلیت سے باخبر ہوجائے گا۔ جو لوگ یہاں کفر اور برائی کو بڑالذیذسمجھ رہے ہیں یا اسے بہت مفید سمجھتے ہیں ، وہاں اچھی طرح جان سکیں گے کہ ان کی حقیقت کیا تھی ۔ کہ اللہ کی گرفت سے تو کوئی بھاگ نہیں سکے گا۔ سب کو اسی کی طرف لوٹنا ہوگا اور تمام وہ آسرے وہ امیدیں جو اس کی ذات اور احکام کے برخلاف انسانوں نے اپنارکھے ہوں گے ختم ہوجائیں گے۔
Top