Asrar-ut-Tanzil - Yunus : 41
وَ اِنْ كَذَّبُوْكَ فَقُلْ لِّیْ عَمَلِیْ وَ لَكُمْ عَمَلُكُمْ١ۚ اَنْتُمْ بَرِیْٓئُوْنَ مِمَّاۤ اَعْمَلُ وَ اَنَا بَرِیْٓءٌ مِّمَّا تَعْمَلُوْنَ
وَاِنْ : اور اگر كَذَّبُوْكَ : وہ آپ کو جھٹلائیں فَقُلْ : تو کہ دیں لِّيْ : میرے لیے عَمَلِيْ : میرے عمل وَلَكُمْ : اور تمہارے لیے عَمَلُكُمْ : تمہارے عمل اَنْتُمْ : تم بَرِيْٓئُوْنَ : جواب دہ نہیں مِمَّآ : اس کے جو اَعْمَلُ : میں کرتا ہوں وَاَنَا : اور میں بَرِيْٓءٌ : جواب دہ نہیں مِّمَّا : اس کا جو تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے ہو
اور اگر وہ آپ کو جھٹلاتے ہیں تو فرمادیجئے کہ میرے واسطے میرا عمل ہے اور تمہارے لئے تمہارا عمل ہے تمہارا اس سے تعلق نہیں جو میں کرتا ہوں اور جو تم کرتے ہو میں اس سے بےتعلق ہوں
آیات 41 تا 53 اسرار و معارف ہربات کی ایک حد ہوتی ہے اور بارگاہ الوہیت سے راہنمائی فرمایا جانا تو اللہ کا بہت بڑا احسان ہے اور جو دلائل اس کی ذات کی طرف سے نازل ہوئے وہ نہایت مضبوط اور حقیقت کے اظہار کا سبب ہیں ۔ اگر اس پر بھی کچھ لوگ مطمئن نہیں ہوتے تو آپ انھیں فرمادیجئے کہ میں جس راہ پر چل رہا ہوں وہ میرے لئے ہے یعنی اس کا نتیجہ میرے سامنے آئے گا اور جو کردارتم نے اپنا رکھا ہے اس کا انجام تمہی کو بھگتناپڑے گا۔ لہٰذا میرے عمل کی بازپرس سے تم بری ہو اور تمہارے کردار کے انجام کی جوابدہی مجھ سے ہرگز نہ ہوگی کہ میں طمع یا خوف رکھوں دینی امور میں دلائل سے سمجھانا شرط ہے زبرستی منوانا جائز نہیں لہٰذا ثابت ہے کہ دینی کام میں دلائل سے حق کو ثابت کرنا اہم فریضہ ہے اس کے بعد کوئی اس بات پہ ایمان لاتا ہے یا نہیں ، یہ فریق ثانی یعنی سننے والوں کی ذمہ داری ہے لہٰذا مبلغ کے لئے اس بات کی قطعا ضرورت نہیں کہ زبردستی منوانے کی کوشش کرے جیسا کہ آجکل تبلیغ کے نام پر ہر جگہ فساد ہو رہے ہیں اور ہر مقرر حددرجہ جارحانہ طرزبیان اختیار کرنے کو ترجیح دے رہا ہے ۔ الا ماشاء اللہ کہ درحقیقت قبول کرنا تو قلب کا کام ہے اور جب قلب پر ظلمت چھا جاتی ہے تو انسان کی حسیں بھی مثاثرہوتی ہیں ۔ قلب کی تباہی کے اثرات اور صحیح بات سننے یا درست انداز میں دیکھنے پہ قادر نہیں ہوپاتا لہٰذا نہ ماننے والے بھی آپ ﷺ کی بات تو سننے تھے یا ان میں سے بعض تو ضرور سننے کے لئے حاضر خدمت ہوتے تھے مگر دل کا اندھیرا نہ انھیں سننے دیتا اور نہ سمجھنے ۔ لہٰذا ارشاد ہوا کہ ان میں سے بعض آپ کے ارشادات سننے آتے ہیں مگر آپ کے پاس تو اختیار نہیں کہ ان کے بہرے پن یا عقل کے اندھے پن کو دور کریں یہ اختیار تو اللہ کریم نے ہر انسان کو خود بخشا ہے کہ وہ اپنے لئے کیا پسند کرتا ہے ۔ اگر انھوں نے کفر کی راہ اپنالی تو یہ ان کا اپنا فعل ہے ایسے ہی وہ آپ کو دیکھتے ہیں مگر انھیں کمالات رسالت دکھائی نہیں دیتے کہ وہ ہیں یعنی ان رنگوں کو دیکھنے کے معاملے میں اندھے ہیں اور اس کا علاج خودان کے پاس ہے کہ وہ اپنے دل کی گہرائی سے کیا فیصلہ کرتے ہیں ۔ تقدیر اور اختیار اور یہ فیصلہ ان پر مسلط نہیں کیا جائے گا نہ ہی آپ ان پر مسلط کریں گے کہ اس کا اختیار خود ان کے پاس ہے ۔ یہ کہنا بھی درست نہیں کہ اللہ نے انھیں ایسا کردیا ہے کہ اگر اللہ زبردستی یا حکما ایسا کردیں تو یہ ظلم ہوگا کہ کسی انسان کو کفرپہ مجبور بھی کردے اور پھر اسی جرم پر اسے سزا بھی دے اور اللہ کریم ہرگز ظلم نہیں کرتے بلکہ راستہ اختیار کرنا یہ ان کی اپنی پسند ہے اور اگر اپنی کے باعث انھیں دکھ اٹھا نے پڑیں تو یہ ظلم وہ خود اپنے ساتھ کر رہے ہیں۔ موت کافر سے بھی پہچان نہیں چھین سکتی اور اس کا علم سلامت رہتا ہے آخر ایک روز سب لوگ میدان حشر میں جمع ہوں گے تو ایک دوسرے کو خوب پہچان رہے ہوں گے بلکہ وہ طویل عرصہ جو ان کی موت کے وقت سے قیام قیامت تک گزرا ہوگا ان کے علم کو متاثر نہ کرسکے گا اور دنیا کا قیام انھیں یادہوگا اور جان رہے ہوں گے کہ حیات دنیا آخرت کے مقابلہ میں بس یوں نظر آتی ہے جیسے لمحہ بھر تھی یا کوئی ایک آدھ گھڑی تھی یعنی موت اور برزخ کے طویل اثرات بھی ان سے علم یاحافظہ نہ چھین سکیں گے اور علم کا ہونا حیات کی دلیل ہے لہٰذا کافر کو بھی ایک طرح کی حیات نصیب ہوتی ہے اور موت صورت حیات کی تبدیلی کا نام ہے فناکانام نہیں۔ بلکہ ان حقائق سے انکار کرنے والے اور موت کو فناسمجھ کر آخرت کے حساب وکتاب کے لئے تیاری نہ کرنے والے لوگ سخت نقصان میں ہیں کہ انھیں ہر حال یہ صورت تو پیش آئے گی اگر آپ ﷺ کے روبروبعض عذاب وار دہوں اور آپ بھی انھیں عذاب لٰہی میں گرفتار دیکھ یا آپ کے دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد ایسا ہی ہوگا اور کسی حدتک مختلف عذاب دیکھ کر پھر انھیں اللہ کی بارگاہ میں بھی حاضر ہونا ہوگا ۔ جو ان کے کردار کے ہر پہلو سے باخبر ہے اور اسے دیکھ رہا ہے پھر اس کے مطابق ان کو نتائج بھی پیش آئیں گے ۔ ہر قوم کے پاس اللہ کے رسول آئے ہر طبقہ اور ہر قوم کے پاس اللہ کے رسول ضرور مبعوث ہوئے ان کی ہدایت کا سامان کیا گیا اور رسول کا مبعوث ہونا کسی بھی قوم کو کسی خاص عمل یاعقیدے پہ مجبور نہیں کرتا بلکہ پیغام رسالت کے بعد ان سے پوراپورا انصاف کیا جاتا ہے کبھی کسی قوم سے زیادتی نہیں کی جاتی یعنی بعث رسول کے بعد ایمان لانے یا کفر راہ اپنا نے کا اختیار لوگوں کے اپنے پاس ہوتا ہے اور جس طرح کا فیصلہ وہ اپنی پسند سے کرتے ہیں اس کے مطابق انھیں انجام سے دوچار ہونا پڑتا ہے ۔ یہ فیصلے مالک کی بارگاہ سے صادرہوتے ہیں اور اللہ کے رسولوں کا کام اللہ کا پیغام پہنچانا ہوتا ہے نہ کہ ان فیصلوں کانفاذ ، مگر ان کا جاہلانہ اعتراض یہ بھی ہے کہ اگر آپ سچے رسول ہیں اور آپ کے ارشاد کے مطابق کفر پہ عذاب اور تباہی نازل ہوتی ہے یا جہنم میں داخل ہونا پڑے گا تو پھر ایسا کروا دیجئے کہ پتہ تو چلے کہ واقعی آپ سچے تھے ۔ بھلایہ بھی کوئی عقل کی بات ہے کہ جب سب کچھ ہوچکے تو اعتبار کرنے سے کیا حاصل اور یقین کا کیا فائدہ۔ نیزرسول بھی تو اللہ کا بندہ ہوتا ہے اور اس کی طرف سے پیغام لاتا ہے لہٰذا ان سے فرمادیجئے کہ جہاں تک نفع نقصان کا تعلق ہے توبندہ ہونے کے ناطے خود میرا معاملہ بھی اللہ کریم کے دست قدرت میں ہے میں خود اپنے نفع ونقصان کا مالک بھی نہیں ہوں بلکہ میرے فیصلے بھی اسی بارگاہ عالی میں سے صادرہوتے ہیں تو بھلا تمہارے لئے میں کیسے کرسکتا ہوں ۔ ہاں ! یہ بات میں تمہیں یقین سے بتاسکتا ہوں کہ ہر قوم کے لئے ایک وقت معین ہے اور سب کے پاس وقت مقررہ تک ہی مہلت ہے جب وہ گھڑی آجاتی ہے تو نہ لمحہ بھرفرصت ہی ملتی ہے اور نہ ہی وہ گھڑی وقت سے لمحہ بھر پہلے آتی ہے۔ ان سے کہیئے کہ تمہارا یہ مطالبہ ہی کس قدر جاہلیت پہ مبنی ہے کہ عذاب واقع ہوتوتم جان لوگے ۔ بھلاتم ماننے کے لئے بچ سکوگے ذراعقل سے کام لو اور سوچو کہ اگر تم رات کی تاریکی میں جب تم بیخبر پڑے ہوتے ہو عذاب وارد ہوجائے اور تمہیں اٹھنے کی فرصت بھی نہ دے یا دن کو کھلی آنکھوں بھی آجائے تو تم کیا کرلوگے ؟ کچھ بھی تو نہیں ۔ تمھارا کیا خیال ہے کہ جب واقع ہوچکے گا تو تم مانوگے اور اگر تم مانناچاہا بھی تو یہ کہہ کر تمہیں رد نہیں کردیا جائے گا کہ اب مانتے ہو جب عذاب واقع ہونا شروع ہوگیا خواہ موت کے وقت یاوی سے اور پہلے جب ماننے کا وقت تھا اس وقت ایمان لانے کی بجائے تمہیں عذاب طلب کرنے کی جلدی تھی ۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ بندے کی توبہ قبول کرتا ہی رہتا ہے حتی کہ بندہ غرغرئہ موت میں گرفتارہوجائے یعنی جب موت کا غرغرہ شروع ہوجاتا ہے تو وقت گزرچکا ہوتا ہے کہ اس وقت برزخ اور آخرت سامنے ہوتی ہے ایمان بالغیب جو مطلوب ہے نہیں ہوسکتا۔ لہٰذا اس وقت تو کفار کو ایک ہی جواب ملتا ہے کہ اب دائمی عذاب کے مزے چکھو ، یہ سب تمہارا اپنا ہی کیا دھرا ہے اور تمہارے عقائدواعمال ہی کا نتیجہ ہے اسی لئے ارشاد ہے کہ یہ توبہ کا قبول نہ ہونا کافر کے لئے ہے مومن کی گناہ سے توبہ غرغرئہ موت کے وقت بھی نصیب ہوجائے تو قبول ہوجاتی ہے۔ یہ بڑی جستجوں میں لگے رہتے ہیں کہ کیا واقعی ایسا ہوگا ؟ یا موت بھی ایک طرح کی زندگی ہی رہتی ہے یا پھر زندہ ہونا ہے حساب دینا ہے ۔ تو فرمائیے ! بیشک اور میرے رب کی قسم ! ایسا ہی ہوگا اور یہ حق ہے ۔ یہاں رب کی قسم ارشاد فرمائی گئی کہ نظام ربوبیت پہ نگاہ کرو تو وہ از خود یہ بتارہا ہے کہ اس سفر حیات کا ایک انجام بھی ہے اور اس نظام کا ہر کام اور ہر فعل اپنا نتیجہ پیدا کرتا ہے تو پھر حیات انسانی بغیر کسی نتیجے کے کیسے رہ سکتی ہے یہ سب کچھ نہ صرف یقینی ہوگا بلکہ تم سب اس کے ہونے کو روک بھی نہیں سکتے۔
Top