Asrar-ut-Tanzil - Yunus : 54
وَ لَوْ اَنَّ لِكُلِّ نَفْسٍ ظَلَمَتْ مَا فِی الْاَرْضِ لَافْتَدَتْ بِهٖ١ؕ وَ اَسَرُّوا النَّدَامَةَ لَمَّا رَاَوُا الْعَذَابَ١ۚ وَ قُضِیَ بَیْنَهُمْ بِالْقِسْطِ وَ هُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ
وَلَوْ : اور اگر ہو اَنَّ : ہو لِكُلِّ نَفْسٍ : ہر ایک کے لیے ظَلَمَتْ : اس نے ظلم کیا (ظالم) مَا : جو کچھ فِي الْاَرْضِ : زمین میں لَافْتَدَتْ : البتہ فدیہ دے دے بِهٖ : اس کو وَاَسَرُّوا : اور وہ چپکے چپکے ہوں گے النَّدَامَةَ : پشیمان لَمَّا : جب رَاَوُا : وہ دیکھیں گے الْعَذَابَ : عذاب وَقُضِيَ : اور فیصلہ ہوگا بَيْنَھُمْ : ان کے درمیان بِالْقِسْطِ : انصاف کے ساتھ وَھُمْ : اور وہ لَا يُظْلَمُوْنَ : ظلم نہ کیے جائیں گے
اور اگر ہر نافرمان کے پاس روئے زمین کی ہر شے ہو (اور) وہ اس کے بدلے چھوٹنا چاہے (تو نہ ہوسکے گا) اور جب وہ عذاب دیکھیں گے تو پچھتائیں گے اور ان کا فیصلہ انصاف کے ساتھ ہوگا اور ان کے ساتھ زیادتی نہیں کی جائے گی
آیات 54 تا 60 اسرار و معارف آج تو تم دنیا کی دولت پہ بہت خوش ہو بلکہ تمہیں ایمان اور اطاعت گراں گزرتے ہیں مگر جب یہ سب کچھ واقع ہوگا تو اگر ہر ایک ظالم کے پاس اتنی دولت بھی ہوجتنی سب روئے زمین پر ہے اور وہ یہ سب دے کر جان چھڑاناچا ہے تو ایسانہ ہوسکے گا بلکہ عذاب کی ذلت کے باعث مارے شرم کے منہ چھپا تے پھر تے ہوں گے نیزوہ بارگاہ تو ایسی عالی ہے کہ ان ظالموں سے بھی کوئی زیادتی نہ کی جائے گی بلکہ عین انصاف کے ساتھ معاملہ ہوگا اور انھیں دہی سزاملے گی جس کے یہ مستحق ہوں گے۔ اور یہ خوب اچھی طرح سے جان لو کہ زمینوں اور آسمانوں میں سب کچھ حقیقتا اللہ کریم کا ہے انسان کو عارضی طور پر اگر کچھ عطا ہوتا ہے تو اس پر اکڑنے کا کیا فائدہ کہ آخر ہر کوئی چھوڑہی کے چل دیتا ہے اور یہ بھی یادرکھو اللہ کے وعدے بھی برحق اور سچے ہیں مگر تم اس کی عظمت ہی سے نا آشنا اور بیگانہ ہو ۔ بھلادیکھوتومال کی حقیقت ہی کیا ہے ؟ خود وہی زندگی دیتا ہے اور ہی موت سے دوچار کرتا ہے اور پھر اسی کی بارگاہ میں سب کو حاضر بھی ہونا ہے۔ لوگو ! تمہارا مزاج ہے کہ کسی حادثے کے منتظر رہتے ہو اور جب کوئی بہت بڑاحادثہ ہوتا ہے تو انسانی معاشرے میں کئی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں ، لوگ سوچ تک بدل لیتے ہیں مگر یادرکھو ! یہ حادثہ ہوچکا اور اللہ کریم کی طرف سے تمہارے پاس اس کا پیغام آچکا ۔ نئی رحمت ﷺ کی بعثت ہی اتنابڑاحادثہ ہے کہ کبھی ایسا ہوا نہ ہوگا ساری انسانیت کے لئے اور ہمیشہ کے لئے اللہ کی رحمت اور بخشش کے خزانوں کے منہ کھل گئے اور ذراسوچو کہ تمہیں تمہارا پروردگار نصیحت فرماتا ہے تم سے کلام فرماتا ہے باتیں کرتا ہے وہ ہستی جو نہ صرف تمہاری خالق ومالک ہے بلکہ رب بھی ہے جس کی شان ہے کہ تمہاری تربیت کرے وہ تم سے بات کرتا ہے اور اس کا رسول ﷺ تمہیں اس کا پیغام سناتا ہے ۔ اب اللہ کی بات کا تو اپنا اثر ہے اور یہی امراض قلب کے لئے اکسیر ہے یعنی تلاوت قرآن اور قرآن کا معنی سمجھنا پھر اس پر عمل یہ سب دل کی دنیا بسانے کے لئے ضروری ہے اور اگر دل میں خرابی ہو تو اس کا علاج بھی یہی ہے یعنی اللہ کے کلام کا اصل کام دلوں کی شفا ہے۔ قرآن سے جسمانی امراض کا علاج اگرچہ جسمانی بیماری بھی اس سے شفاپاتی ہے مگر وہ ایک جزوی فائدہ اور برکت ہے جو بہرحال اصل کے تابع ہی اچھی لگتی ہے یعنی امراض قلب کا علاج قرآن سے کیا جائے اور ضمنا ضرورت پیش آتے تو جسمانی علاج بھی درست ہے اور بزرگوں سے بیشمار تجربات ثابت ہیں جن کا انکار ممکن نہیں لیکن قرآن کو محض جسمانی بیماریوں کے لئے تعویذ گنڈھے کی کتاب ہی سمجھ لینا بھی ہرگز درست نہیں بلکہ اس کا اصل کام دلوں کی شفا ہے نیز یہ بھی ثابت ہوا کہ دین دل میں آتا ہے اور کیفیات قلبی کا نام ہے۔ نیز یہ قرآن ہدایت بھی ہے۔ ہدایت سے مراد ہے کہ نہ صرف کیفیات قلبی عطافرماتا ہے بلکہ پوری انسانی زندگی میں بہترین طرز عمل کی راہنمائی بھی فرماتا ہے ہدایت سے مراد کسی بھی کام کو کرنے کا درست طریقہ ہے تو گویا اسلام قرآن کے مطابق زندگی بسر کرنے کا نام ہے زندگی سے فرار کا نام نہیں ۔ ذاتی معاملات ہوں یا خانگی بات قبیلے کی ہو یا قوم کی معاملہ ملکی ہو یا بین الا قوامی اپنی استعداد کے مطابق اور قرآنی تعلیمات کے مطابق اس میں بھر پورحصہ لینا ہی اسلام ہے اور یہی آقائے نامدار ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی مقدس ذوات کے طرز عمل سے ثابت ہے اور ایمان لانے والوں کے لئے یہی قرآنی نظام حیات ہی اللہ کی بےبہارحمت کا خزانہ بھی ہے یعنی دل کی کیفیات اللہ کے نام سے روشن ہوں اور عملی زندگی قرآنی تعلیمات سے منورہو تویہی کمال رحمت کا حصول ہے یہ سارا انعام اللہ کریم کے پیارے نبی ﷺ سے تعلق اور آپ کی غلامی میں ہے۔ اور انھیں فرمادیجئے کہ اگر یہ نعمت نصیب ہوجائے تو دوجہانوں سے بڑی دولت ہے اور اللہ کے اس فضل ومہربانی اور رحمت و شفقت پہ جس قدرخوشی کرو کم ہے کہ دار دنیا کی سب نعمتوں دولتوں اور اقتدار سے یہ کروڑوں گنا قیمتی اور اعلیٰ ہے ۔ جہاں دنیا کے اقتدار اور دنیا کی دولت پہ خوشی منانے سے اکڑ پیدا ہوتی ہے وہاں انعامات باری پہ خوشی منانے سے جذبہ تشکر پیدا ہوتا ہے لہٰذا اس نعمت پہ خوشیاں مناؤ ۔ اور لوگویادر کھو ! کائنات کا مالک اللہ ہے نظام بھی اسی کا چلے گا اور یہ اس کا حق ہے ۔ لہٰذا کیا حلال ہے اور کیا حرام یہ مقرر کرنا اللہ کا کام ہے اور اللہ کے رسول ﷺ کے ذمے بتانے کا کام ہے ۔ اللہ نے تمہیں جو نعمتیں بخشی ہیں ان کو تم اپنی پسند سے حرام یا حلال سمجھنے کا حق نہیں رکھتے جب تک اللہ کی طرف سے حکم نہ ملے جیسے کسی کو پسند ہو حلال و حرام مقرر کرلے تو یہ اللہ کی عظیم ذات پر بہتان باندھنے کے مترادف ہے اور جو لوگ ان امور میں دخل دیتے ہیں اور اپنی مرضی سے چندرسومات گھڑکر اسے مذہب کا نام دے لیتے ہیں جس میں کچھ امور حلال اور کچھ حرام یعنی منع کردیتے ہیں ذرا ان سے پوچھئے کہ ان کے پاس یوم حشر کے لئے کیا جواب ہے مذہب مقرر کرنا اور حدود بنانا یہ انسان کا نہیں مالک کا کام ہے اور وہ تو اپنی مخلوق سے بہت زیادہ مہربانی کرنے والا ہے ۔ بھلا جو نرمی اور شفقت وہ دے سکتا ہے انسان کے ایجاد کردہ مذاہب ودساتیر میں کہاں ممکن ہے مگر لوگ اکثر ناشکری کرتے ہیں اور اللہ کی اطاعت کی بجائے لوگوں کی باتوں کے اسیررہتے ہیں ۔
Top