Tafseer-e-Mazhari - Al-Hajj : 68
اُبَلِّغُكُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَ اَنَا لَكُمْ نَاصِحٌ اَمِیْنٌ
اُبَلِّغُكُمْ : میں تمہیں پہنچاتا ہوں رِسٰلٰتِ : پیغام (جمع) رَبِّيْ : اپنا رب وَاَنَا : اور میں لَكُمْ : تمہارا نَاصِحٌ : خیر خواہ اَمِيْنٌ : امین
میں تمہیں خدا کے پیغام پہنچاتا ہوں اور تمہارا امانت دار خیرخواہ ہوں
ابلغکم رسلت ربی وانا لکم ناصح امین : اپنے رب کے احکام تم کو پہنچا رہا ہوں اور تمہارا بہی خواہ ہوں اور (پیام رسالت کا) امین ہوں۔ وانا لکم ناصح یعنی میں جس امر کی تم کو دعوت دے رہا ہوں اس میں تمہارا مخلص ‘ خیرخواہ ہوں۔ کافروں نے جملہ اسمیہ بولا تھا اور کہا تھا انا لنظنک اس کے مقابلہ میں حضرت ہود نے بھی ناصحٌ بصیغہ اسم فاعل فرمایا۔ کلبی نے کہا اس کا مطلب یہ ہے کہ میں آج تک تمہارے اندر رہا اور امین رہا لہٰذا اب مجھ پر جھوٹے ہونے کی بدگمانی کرنے کی کوئی وجہ نہیں۔ حضرات انبیاء واقف تھے کہ کافر انتہائی گمراہ اور احمق ہیں لیکن انہوں نے تہذیب اور حلم سے کام لے کر مقابلہ سے پہلوتہی کی اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء اپنی امتوں کے کتنے بہی خواہ کافروں پر کتنے مہربان ‘ قوت برداشت میں کتنے کامل اور حسن خطاب کے ذریعہ دلوں کو ہدایت کی طرف کس قدر کھینچنے والے تھے اس گفتگو کو نقل کر کے اللہ نے بندوں کو تعلیم دی ہے کہ بیوقوفوں سے کس طرح خطاب کیا جائے۔
Top