بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Asrar-ut-Tanzil - Hud : 1
الٓرٰ١۫ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰیٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِیْمٍ خَبِیْرٍۙ
الٓرٰ : الف لام را كِتٰبٌ : کتاب احْكِمَتْ : مضبوط کی گئیں اٰيٰتُهٗ : اس کی آیات ثُمَّ : پھر فُصِّلَتْ : تفصیل کی گئیں مِنْ : سے لَّدُنْ : پاس حَكِيْمٍ : حکمت والے خَبِيْرٍ : خبردار
الٓر ۔ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کی آیتیں مستحکم کی گئی ہیں پھر (اللہ) حکمت والے اور خبر رکھنے والے کی طرف سے کھول کر بیان کردی گئی ہیں
آیات 1 تا 8 اسرار و معارف الر حروف مقطعات ہیں جن کا علم اللہ اور اس کے رسول ﷺ کو ہے یا جیسے رب چاہے سمجھ عطاکردے مگر تلاوت سب کے لئے ہے اور فائدہ بھی سب کو پہنچتا ہے۔ یہ ایسی بےمثال کتاب ہے کہ اس کی آیات محکم یعنی ناقابل تبدیل ہیں اگرچہ پہلے بھی آسمانی کتب نازل ہوتی رہیں مگر ان کی آیات اور احکام خاص قوموں یا ملکوں کے لئے اور خاص زمانوں کے لئے تھے جو بعد میں نزول قرآن سے بھی کلی طور پر منسوخ ہوگئے مگر یہ کتاب بیک وقت ساری انسانیت کے لئے تمام ملکوں کے لئے اور سب زمانوں کے لئے ہے اور اس کے احکام ہر دور اور ہر ملک میں قابل عمل بھی ہیں لہٰذا یہ ہمیشہ کے لئے ہے اور کسی بھی امر میں کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں چھوڑتی ایک ایک بات عقائد ہوں یا اعمال سیاسیات ہوں یا اخلاقیات معیشت ہو یا معاشرت کھول کھول کر بیان کرتی ہے ۔ اور کیوں نہ ہو جبکہ اس کے نازل کرنے والی ہستی ہی صاحب حکمت بھی ہے اور ہر بات اور ہر حال سے باخبر بھی نیز اس کے تمام احکام واخبار کا ماحصل یہ ہے کہ بندے کو خالق حقیقی سے آشنا کردے اور اس کا سر اللہ کے سوا کسی بھی دوسری چوکھٹ پہ نہ جھکے یہی برکات انسانوں تک پہنچانا اللہ کے رسول ﷺ کافریضہ رسالت ہے فرمایا انھیں بتادیجئے کہ بیشک اس کتاب میں یہ تمام کمالات موجود ہیں مگر یہ میرامنصب ہے کہ جن خطرات سے قبل ازوقت یہ کتاب آگاہ فرماتی ہے ان سے انسانوں کو آگاہ کروں اور جن امور پر اللہ کی خوشنودی کی خبردیتی ہے ان کی تفصیل نبی آدم کو سمجھاؤں۔ کتاب بغیررسول کے نافع نہیں لہٰذایہ بات واضح ہوگئی کہ کتاب بغیررسول کے نافع نہیں ہے اور جو لوگ قرآن کی تعبیر اپنی پسند سے کرتے ہیں اور اہل قرآن کہلاتے ہیں وہ حق پر نہیں اور میرامنصب یہ بھی ہے کہ تمہیں اللہ سے معافی طلب کرنے کی دعوت دوں تمہارے قلوب میں وہ جذبہ پیدا کروں کہ تم اس ذات کریم سے مغفرت طلب کرو اور آئندہ نافرمانی نہ کرنے کا عہد بھی کرو کہ توبہ زبانی اقرار کے ساتھ عملی طور پر اصلاح پذیر ہونے کا نام ہے اس لئے کہ دوعالم کا آرام اللہ سے بخشش طلب کرنے اور توبہ کرنے پہ ملتا ہے انسان بہرحال انسان ہے خطاکا ہوجاناتو بعید نہیں مگر خطا کی بخشش طلب کرتا رہے اور گناہ کو پیشہ نہ بنالے تو استغفار کرنے والوں اور توبہ کرنے والوں کو اللہ دنیا کی زندگی میں بھی بہترین موقع اور رزق حسن عطافرماتے ہیں یعنی ایسے حالات عطافرماتے ہیں جن سے انھیں راحت و سکون نصیب ہو رزق حسن سے مفسرین کرام کے نزدیک وہ رزق ہے جو سکون و اطمینان بھی عطاکرے اور چونکہ یہ دنیا کی زندگی کے لئے ہے لہٰذاتاجین حیات نصیب ہوگا اور پھر موت اس سے محروم نہ کردے گی بلکہ ہر نیکی کرنے والا اپنے عمل کا بہترین اجرپائے گا یعنی استغفار اور توبہ گناہ سے بچنے اور نیکی پر عمل پیرا ہونے سے دنیا کی بہترین زندگی نصیب ہوتی ہے اور آخرت کے بہترین انعامات ۔ ساتھ یہ بھی فرمادیجئے کہ اگر تم لوگ روگردانی کروگے اور استغفار کی بجائے گناہ کا راستہ پسند کروگے تو مجھے ڈر ہے کہ تم روز قیامت جو بڑا اور اہم دن ہوگا گرفتار عذاب ہوجاؤکہ مسلسل گناہ انسان کو کفر کی طرف لے جاتا ہے اور کفرہمیشہ کے عذاب میں مبتلا کرنے کا باعث بنتا ہے اس لئے تمہیں اور تو کوئی راستہ نہیں مل سکتا لہٰذا ہر حال واپس اللہ کے حضور ہی جانا ہے اور وہ ہرچیز پہ قادر ہے کوئی شے اس کے احکام کے راستے کو روکنے کی سکت نہیں رکھتی۔ فلسفہ گناہ فرمایا سن اے حبیب ! یہ بدنصیب تیری اس بہترین خیرخواہی پر بھی تیرے دشمن ہو رہے ہیں اور جو بعض وعنادان کے سینوں میں بھرا ہے اس پر مختلف پردے ڈال کرچھپانے کی کوشش کرتے ہیں یہ نادان جانتے نہیں کہ اللہ سے کیا چھپ سکتا ہے وہ تو پوشیدہ اور ظاہرسب کو جانتا ہے اور دلوں کے بھید اس کے علم میں موجود ہیں ۔ یہاں گناہ کا فلسفہ آپ ﷺ سے محبت میں کمی کو بتایا گیا ہے اور اگر یہی کمی بڑھ کر آپ ﷺ کی عداوت تک چلی جائے توکفربن جاتی ہے ۔ ومامن دآبۃ۔ رہی امور دنیا کی مصروفیت اور طلب دنیا میں اللہ کی اطاعت سے گریز تو فرمایا ، یہ محض بدنصیبی ورنہ ہر جاندار کا رزق اللہ کریم نے اپنے ذمہ لے لیا ہے اور کوئی بھی ایسی مخلوق نہیں جسے پیداتو کیا ہو مگر اس کی روزی کا اہتمام نہ فرمایا ہو خواہ وہ زمین کے کسی بھی حصہ میں ہے ۔ پرندے ہوں یا حیوانات درندے ہوں یا آبی جانور چھوٹے ہوں یا بڑے ہر ایک کی جب تک حیات مستعار مقرر ہے تب تک کی تمام ضرورتوں کو پورا کرنا ، یہ اللہ کریم نے اپنے ذمہ لے لیا ہے انسان تو ساری مخلوق میں اس کی تخلیق کا بہترین شاہکار ہے بھلا اس کے رزق کا اہتمام کیسے نہ ہوگا ؟ ہاں ! اپنی نادانی کے باعث یہ اللہ کی اطاعت چھوڑ کرنا جائزذرائع سے حصول زر میں مبتلا ہوکرتباہ ہوجاتا ہے ۔ اگر اطاعت سے باہرقدم نہ رکھتا تو بھی اپنا نصیبہ ضرورحاصل کرلیتا اور اللہ کریم نے ہرجاندارکورزق پہنچانے کا ایسا اہتمام فرمادیا ہے کہ وہ جہاں اور جس حال میں ہوتے ہیں وہ اس کی ضرورتوں اور حاجات کو بھی جانتا ہے بلکہ اس کا علم تو وسیع تر ہے اور یہ سب امور تو لوح محفوظ میں بھی درج ہیں اور ظاہر ہے کہ لوح محفوظ کے علوم کو اپنی تمام تروسعت کے باوجود علوم الٰہی سے تو کوئی نسبت نہیں ۔ بھلاوہ کیسے نہ جانے گا کہ اسی ذات قدیرنے تو ارض وسماکو چھ دنوں میں پیدا فرمایا اس لئے نہیں کہ وہ ایک آن میں بنا نہیں سکتا تھا اس لئے کہ عالم کے ہر کام میں ایک ترتیب مقرر فرمادی جو انسانی زندگی کے لئے ضروری تھی زمینوں اور آسمانوں کی تخلیق سے بھی پہلے پانی تھا جس پر اس کا تخت موجود تھا ، اس کی سلطنت جاری وساری تھی اور پھر یہ نظام اس نے اسی لئے بنایا کہ تمہیں دیکھے کہ تم میں سے کون بہترین عمل کرتا ہے یعنی عمل کا مدار محض کثرت تعداد پر نہیں بلکہ امتحان حسن عمل کا ہے کہ کون کس قدرخلوص اور محبت سے کوئی کام کرتا ہے اور یہ ایک دلی کیفیت ہے جسے احسان فرمایا گیا ہے کہ دل کی گہرائی سے اللہ کی اطاعت اور عبادت کی جائے ۔ آپ جب یہ خبردیتے ہیں کہ لوگو ! تمہیں موت کے بعد زندہ ہو کر اللہ کے حضور پیش ہونا ہے تو کفار کی جہالت دیکھیں وہ کہتے ہیں یہ جادو ہے ۔ بھلا جادوتو دنیا کا مفاد حاصل کرنے کے لئے لوگ اپنا تے ہیں اخروی زندگی اور اس کے حالاتکابروقت بیان اور وہاں کی تباہی سے بچنے کا طریقہ بتانا کی سے جادو ہوسکتا ہے ۔ اور اگر ایک خاص وقت تک انھیں مہلت دی گئی یا موت تک اگر آخرت کے عذاب سے بچے ہوئے ہیں تو کہہ دیتے ہیں کہ اگر واقعی عذاب ہونے ہیں تو ہوتے کیوں نہیں ؟ انھیں کس نے روک رکھا ہے ؟ فرمادیجئے کہ خوب جان لو ! جب عذاب کا وقت آجائے گا تو پھر اسے واقع ہونے سے کوئی نہیں روک سکے گا اور وہ یقینا آئے گا اور یہ جو کفار مذاق اڑاتے ہیں انھیں اس کا مزہ چکھنا پڑے گا اور ان کا مذاق ہی ان کے گلے میں مصیبت بن کر پڑے گا۔
Top