Asrar-ut-Tanzil - Hud : 25
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا اِلٰى قَوْمِهٖۤ١٘ اِنِّیْ لَكُمْ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌۙ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا : ہم نے بھیجا نُوْحًا : نوح اِلٰي : طرف قَوْمِهٖٓ : اس کی قوم اِنِّىْ : بیشک میں لَكُمْ : تمہارے لیے نَذِيْرٌ : ڈرانے والا مُّبِيْنٌ : کھلا
اور یقینا ہم نے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف بھیجا (انہوں نے فرمایا) بیشک میں تمہارے لئے (انجام بد سے) صاف صاف ڈرانے والا ہوں
آیات 25 تا 35 اسرار و معارف بلکہ ان امور کے نتائج کا فرق دنیا میں بھی سامنے ہے اور تاریخ اس پر گواہ ہے جیسے نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی طرف مبعوث فرمایا گیا اور انھوں نے اعلان فرمایا کہ لوگو ! کافرانہ عقائد اور برے اعمال کے نتائج قدر ہولناک ہوں گے یہ مجھ سے سنو کہ یہی میرافریضہ نبوت ہے اور تمہارے کردار کا انجام دیکھ کر تو بدن کانپ اٹھتا ہے کہ روزحشرکا عذاب بہت دردناک ہوگا اور تمہارے غلط نظریات تمہیں اس سے دوچار کردیں گے۔ بشریت ونبوت مگرقوم میں صاحب اقتدار لوگ بھڑک اٹھے جو کفر کی وجہ سے ہی برسراقتدار تھے یا کفار کی رسومات میں ان کو مرکزی مقام حاصل تھا۔ انھوں نے جب اس پر زدپڑتے دیکھی تو فورا اعتراض کرنے لگے کہ بھلا آپ نبی کیونکہ ہوسکتے ہیں ؟ آپ تو ہماری طرح بشر ہیں ، ہماری طرح کھانا پینا سونا جاگنا سب تو آپ میں ہے پھر آپ کو یہ امتیازی شان کیسے نصیب ہوگئی ۔ ان کا خیال تھا کہ نبی بشر نہیں ہونا چاہیئے حالانکہ ساری مخلوق میں سے نبوت کا تاج بشریت کو نصیب ہواہاں نبی مثالی بشر اور انسان ہوتا ہے اور لوگ اپنے اور پر قیاس کریں تو بات نہیں بنتی نیزنبی کی بشریت کا انکاررداصل نبوت کا انکار ہے کہ انسانوں ہی کو برکات پہنچانے انہی کی جنس میں سے انبیاء چنے گئے اور دوسری بات یہ ہے کہ آپ کو ماننے والے توغریب اور نادارلوگ ہیں جن کی رائے بھی کوئی حیثیت نہیں رکھتی ۔ ارذل کمینے آدمی کو کہا جاتا ہے تو گویا کفار کے نزدیک معیارشرافت و دانائی دولت دنیا تھی حالانکہ شرافت کا معیاران کا کردارہوتا ہے جس کی بنیاد اس کے عقائد بنتے ہیں تو اس اعتبار سے رذیل یاکمینہ وہ ہوگا جس کے عقائدخراب ہوں جیسے امام مالک (رح) سے کسی نے پوچھا کہ سب کمینہ کون ہے ؟ تو انھوں نے فرمایا جو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو برا کہے کہ وہ پوری انسانیت کے محسن ہیں جن کے ذریعہ سے وین حق پہنچا۔ دنیا کی دولت تو کبھی معیار نہیں بن سکتی کہ اکثر کافر یاعملا رذیل انسان بھی حاصل کرسکتے ہیں مگر نور ایمان کسی میں رذالت یاکمینہ پن نہیں رہنے دیتا اگرچہ آج کے بگڑے ہوئے معاشرے میں پھر یہی رواج ہے کہ دولتمند ہی دست آدمی ہے اور اسی کی رائے صائب ہے مگر یہ معیار کفار کا ہے ۔ اسلامی معیاردین ہے خواہ امیر کے پاس ہو یا غریب کے سینے میں جو جس قدردیندار ہے اسی قدرعزت واحترام کا مستحق ہے ۔ مگر کفار کو یہ بات بھی ایمان سے مانع تھی کہ وہ غریب آدمیوں کے ساتھ مل کربیٹھیں یا ان جیسے عقائداختیار کرکے ان کے ساتھ مل کر عبادت کریں ۔ مگر دیکھایہ گیا ہے کہ دولت کانشہ عموما انسانی رائے میں بگاڑ پیدا کرتا ہے اور غریب اکثر درست فیصلے کرپاتا ہے اسی لئے انبیاء کے پیروکار ابتدائی ایام میں غریب ہی ہوتے تھے کہ امراء اکثر دنیا کے منافع پر جمع ہوتے ہیں۔ ہرقل روم کو جب آپ ﷺ کا نامہ مبارک پہنچا اور اس نے تحقیق کرنا چاہی تو ایک سوال یہ بھی تھا کہ آپ ﷺ کے ماننے والے امیرلوگ ہیں یاغربائ ؟ جب پتہ چلا کہ غرباء ہیں تو کہنے لگا یہ تاریخی حقیقت ہے کہ انبیاء کو اول اول غریبوں نے ہی مانا ہے۔ تیسرے اعتراض انھیں یہ تھا کہ ایمان لانے کے باعث بظاہرتو تم لوگوں کو ہمارے مقابلے میں کوئی کامیابی نصیب ہوتی نظر نہیں کہ آتی تمہیں دولت یا اقتدار یا کوئی دنیا کی بڑی نعمت مل گئی ہو تو پھر ہم آخرکیوں ایمان لائیں ؟ بلکہ ہماری رائے تو یہ ہے کہ یہ سب کچھ جو آپ کہتے ہیں جھوٹ ہے۔ جیسے آج بھی بہت سے لوگوں کی سوچ یہی ہے کہ بماز روزہ اور عبادت کرنے سے آدمی شاید روزمرہ کی ضروریات سے بالاترہوجاتا ہے اور اسے کوئی تکلیف نہ ہونی چاہیئے ۔ حالانکہ یہ ایک الگ نظام ہے اور ایمان وعمل ایک الگ کیفیت دیکھنا یہی ہے کہ اس نظام کائنات میں رہتے ہوئے کوئی ایمان لاتا ہے یا کفر کرتا ہے اگر ایمان لانے سے ایسا ہونے لگے جیسے عام لوگ توقع کرتے ہیں تو بھلا کافر کون رہے گا مگر پھر اس ایمان کی کیا قیمت جو اللہ کے لئے نہ تھا صرف دنیا کی غرض سے تھا۔ لہٰذا انھوں نے فرمایا ہیں جو کہتا ہوں وہ دلیل سے کہتا ہوں اور اس کی حقانیت میرے معجزات سے بھی ظاہر ہے اس پر نقلی دلائل بھی موجود اور عقلی دلائل بھی بیشمار ہیں اور اللہ نے مجھے اپنی رحمت سے نوازا ہے نورنبوت رحمت الٰہی کا خزانہ ہے جسے ایمان نصیب ہوتا ہے اس کے دل پر رحمت کی گھٹاچھاجاتی ہے اور جو لطف جو مزے اسے نصیب ہیں بھلا تم کو ان کی خبرکہاں ؟ اگر تم نے خود ہی آنکھ بند کرلی یا تمہارے کرتوتوں کے باعث اللہ نے تمہیں یہ سب دیکھنے کی توفیق نہ دی تو کوئی زبردستی نہیں ہوسکتی کہ جن نظریات کو تم ناپسند کرتے ہو وہ تم پر مسلط کئے جائیں۔ اگر خدانخواستہ میں یہ سب ڈھونگ رچاتا تو اس کا بھی کوئی تو مقصد ہوتا اور ظاہر ہے جب اللہ کے لئے نہ ہوتا تو اس کا مقصد دولت دنیا تو ہوناقدرتی بات تھی تو کیا میں نے تم سے دولت کا سوال کیا ہے ؟ یا چندے مانگتے شروع کریئے ہیں ؟ ہرگز نہیں ! بلکہ میرا اجرتو اس ذات کریم کے پاس ہے جس کا میں کام کررہا ہوں اور وہی سب کو دینے والا بھی ہے اگر اس نے تمہیں زیادہ مال دیا ہے مگر تم کفر کرتے ہو اور جنہیں مال کم دیا ہے وہ ایمان کی دولت سے مالا مال ہوگئے تو اب کیا انھیں بھگادوں ؟ ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا کہ معیار دولت دنیا نہیں بلکہ معیار انسانیت وآدمیت کو اللہ کے ہاں قبولیت ہے اور یہ خوش نصیب نور ایمان کی بدولت فردائے قیامت شاداں وفرحاں اس کی بارگاہ میں پہنچیں گے جب کہ تم اپنی جہالت کے باعث یہ سعادت ضائع کر رہے ہو۔ اللہ کے خزانے میں نے نبوت کا دعوے کیا ہے جس پر میں دلائل دے رہا ہوں ۔ کوئی اللہ کا شریک اس کی ذات یا صفات میں نہیں بن رہا کہ میں کہدوں اللہ کے خزانے میرے ہاتھ میں ہیں اب میں جو چاہوں کروں ۔ ہرگز نہیں ! میں تو اس کا بندہ اور نبی ہوں ، وہ اپنے نظام کا خود مالک ہے۔ یہاں ان لوگوں کے وہم کی تردید بھی ہوگئی جو اولیاء اللہ کو سب خزانوں کا مالک سمجھتے ہیں اور جانتے ہیں کہ اہل اللہ جو چاہیں کریں بلکہ معاملہ الٹ ہے ۔ اولیاء اللہ وہ کرتے ہیں اور اس پر راضی رہتے ہیں جو اللہ کو منظور ہو ۔ ہاں ! اس سے دعا کرنا یا دعا کا قبول فرمانا الگ بات ہے۔ علم غیب اور نہ میرایہ دعوی ہے کہ میں غیب کا علم رکھتا ہوں ۔ علم غیب سے مرادیہ ہے وہ سب ذرائع سے غائب ہو یعنی کسی بھی ذریعے سے حاصل نہ کیا جائے اور یہ صرف اللہ کا خاصہ ہے انبیاء (علیہم السلام) کو اللہ کی طرف سے اطلاع دی جاتی ہے ۔ وحی الہام یا القا ان کے جاننے کا سبب بنتا ہے لہٰذا اسے علم غیب کہنا ہی درست نہیں یہ اطلاع من الغیب کہلاتا ہے اور ولی تو نبی کی اطاعت سے پاتا ہے اور نبی ورسول کو عالم الغیب ہونا ضروری بھی نہیں کہ اس نے تو مالک کا حکم پہنچانا ہے اور مالک خود غیب دان کافی ہے۔ اولیاء بھی انسان ہوتے ہیں نہ میرا یہ دعوی ہے کہ میں فرشتہ ہوں کہ نہ کھاؤں نہ پئوں نہ رنج ہو اور نہ راحت کا سوال بھئی ! میں تو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں ۔ یہاں ان توہمات کی بھی تردید ہوگئی جو اولیاء اللہ کے بارے جہلا میں مشہور ہیں کہ وہ کوئی اور طرح کی مخلوق ہوتے ہیں نہ گھرگھاٹ ہوتا ہے نہ کھاتے پیتے ہیں بلکہ جنگلوں میں پائے جاتے ہیں ۔ یہ سب خرافات ہیں بلکہ اولیاء اللہ سب سے زیادہ مناسب وموزوں زندگی بسر کرنے والے ہوتے ہیں کبھی مافوق الفطرت نہیں ہوتے اور نہ میں اس بات پہ متفق ہوسکتا ہوں کہ جن لوگوں کو تم کوئی اہمیت دینے کو تیار نہیں انھیں اللہ بھی کچھ نہیں دے گا وہ تو دلوں کے بھید جانتا ہے اور اجر کا معیار تو دلی کیفیات ہیں کہ کون اپنے دل کے حال سے اس کے کس قدر قریب ہے جب انھیں نور ایمان نصیب ہے تو دل کا تعلق تو ثابت ہے اب کس کا کتنا ہے یہ اللہ خود جانتا ہے اگر میں بھی تمہاری ہاں میں ہاں ملانے کو کہہ دوں کہ انھیں کچھ نہیں ملے گا تو یہ بہت بڑی زیادتی ہوگی جس کی توقع تمہیں میری ذات سے نہ رکھنا چاہیئے۔ تو ہر طرح سے لاجواب ہو کر کہنے لگے کہ بہت بحث ہوچکی اور صدیاں بیت گئیں آپ کہنے سے باز نہیں آئے اور ہم نے مان کر نہیں دیا اب فیصلہ اسی صورت میں ہوسکتا ہے کہ آپ جس عذاب سے ڈراتے ہیں اگر یہ سچ ہے تو وہ عذاب لے آیئے انھوں نے فرمایا میراکام عذاب لانا نہیں بلکہ اعمال کے کھرے کھوٹے ہونے اور اس پر مرتب ہونے والے نتائج سے آگاہ کرنا ہے لیکن اگر تمہارا خیال ایسا ہی ہے اور تم نے یہی فیصلہ کرلیا تو پھر اللہ نے چاہا تو ایسا بھی ہو کر رہے گا اور تم اسے روک نہیں سکوگے ۔ چناچہ انھوں نے بددعافرمائی اور قوم پر غرق کا عذاب نازل ہوا۔ فرمایا اگر میں کوشش بھی کرتا رہوں تو میری نصیحت تمہیں کوئی فائدہ نہیں دے سکتی جبکہ اللہ کی نافرمانی تم اس حدتک کرچکے ہو کہ اب اسنے تمہیں اپنے در پر آنے روک دیا ہے اور وہی تمہارا رب ہے تقاضائے ربوبیت ہے کہ ہر درخت پر اس کا مخصوص پھل لگے پھر تمہیں اسی کی بارگاہ میں جوابدہ بھی ہونا ہے تو گویا ہر فردکا ایک ذاتی رابطہ بھی اپنے رب سے ہے اگر وہی ٹوٹ گیا تو پھر اصلاح کیسی۔ رہی یہ بات کہ تمہارا خیال ہے یہ سب میں نے اپنی طرف سے گھڑلیا ہے جبکہ یہی بات مشرکین مکہ بھی دہراتے تھے اور اکثرکفار کے منہ سے وہی کافرانہ جملے ادا ہوتے ہیں جو ان سے پہلے کافروں کے منہ نکلے ہوں شایدیہ دلوں کی مشابہت کا اثرہو تو فرمایا آپ بھی انھیں وہی جواب ارشاد فرمائیے کہ اگر میں نے یہ سب اپنی طرف سے گھڑا ہے تو اس میں تمہارا تو کچھ نہیں بگڑے گا کہ تم تو قبول ہی نہیں کر رہے لہٰذا اپنی بات کا ذمہ تو میں خود لیتا ہوں مگر یادرکھو ! جو کرتوت تمہارے ہیں وہ بھی تمہی کو بھگتناہوں گے ۔ میراتم سے یا تمہارے اعمال سے کوئی سروکارنہ ہوگا۔ بدعات ورواجات تو یہ بھی ثابت ہوا کہ جو رسامات وبدعات جہلا میں پھیلی ہوئی ہیں اور جن کی شریعت میں کوئی اصل نہیں نبی رحمت ﷺ کا ان سے کوئی تعلق نہیں نہ آپ ﷺ ان کے بارے سفارش فرمائیں گے بلکہ بنانے اور عمل کرنے والے بھگتیں گے۔
Top