Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Asrar-ut-Tanzil - Hud : 36
وَ اُوْحِیَ اِلٰى نُوْحٍ اَنَّهٗ لَنْ یُّؤْمِنَ مِنْ قَوْمِكَ اِلَّا مَنْ قَدْ اٰمَنَ فَلَا تَبْتَئِسْ بِمَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَۚۖ
وَاُوْحِيَ
: اور وحی بھیجی گئی
اِلٰي نُوْحٍ
: نوح کی طرف
اَنَّهٗ
: کہ بیشک وہ
لَنْ يُّؤْمِنَ
: ہرگز ایمان نہ لائے گا
مِنْ
: سے
قَوْمِكَ
: تیری قوم
اِلَّا
: سوائے
مَنْ
: جو
قَدْ اٰمَنَ
: ایمان لا چکا
فَلَا تَبْتَئِسْ
: پس تو غمگین نہ ہو
بِمَا
: اس پر جو
كَانُوْا يَفْعَلُوْنَ
: وہ کرتے ہیں
اور نوح (علیہ السلام) کی طرف وحی کی گئی کہ آپ کی قوم میں سے جو لوگ ایمان لاچکے ہیں ان کے علاوہ ہرگز کوئی ایمان نہ لائے گا پس آپ ان کے کردار کا غم نہ کھائیں
آیات 36 تا 49 اسرار و معارف لہٰذا یہ بات نوح (علیہ السلام) کے حالات سے بھی واضح ہے کہ جب انھیں اللہ کا حکم پہنچاتے صدیاں بیت گئیں کہ ان کی عمربہت لمبی تھی اور قوم کی کئی نسلیں ان کے سامنے گزر گئیں مگر ایمان نہ لائے تو انھیں اللہ کریم کی طرف سے اطلاع کردی گئی کہ اب ان لوگوں میں سے کوئی بھی ایمان نہ لائے گا ان کی بداعمالیوں کی وجہ سے ایمان لانے کی استعدادہی ان سے کھوگئی اور ان کے دلوں پر مہرلگ چکی ہاں ! صرف وہ محدود تعداد جو پہلے سے ایمان لا چکی ہے چناچہ آپ ان کا غم چھوڑ دیں اب یہ جو بھی کرتے ہیں آپ اس سے دل گرفتہ نہ ہوں کہ ان کا انجام قریب ہے تم ہی نوح (علیہ السلام) نے بدعافرمائی جو قرآن میں مذکور ہے کہ اللہ ! روئے زمین پر کوئی کافرباقی نہ رہے کہ اب تو ان کی نسلوں میں بھی کافر ہی پیدا ہوتا ہے کسی خیر کی امید نہیں ۔ صنعت اور مسلمان چنانچہ ارشاد ہوا کہ آہمارے روبردہماری وحی کے مطابق ایک آبی جہاز بنائیے ! روبرو سے مراد ہے کہ پوری صفای اور بہترین پیمائش اور خوبصورت جو ڑلگاکربنائی جائے اور بحری جہاز کی صنعت کی یہی ابتداتھی مفسرین کرام کے مطابق دنیا بھر کی ایجادات وحی کے ذریعہ سے تعلیم فرمائی گئیں اور کسی نہ کسی نبی نے شروع فرمائیں جن میں سے متعدد ایجادات کا ذکر قرآن پاک میں ملتا ہے ہاں ! بعد میں آنے والے لوگوں نے ان میں مزید ترتی ضرور کرلی اور زمانے کی ضروریات کے مطابق انھیں ڈھالتے رہے لہٰذا مسلمانوں کو صنعتی امور پر زیادہ توجہ کرنا اور ایسے علوم کا پڑھنا سنت انبیاء ہے اور اس میں دنیا کی ترقی اور اقوام عالم پر غلبہ پانے کا راز بھی ہے ۔ نیز یہ بھی بتادیا گیا کہ جذبہ ترحم جوش میں آئے اور ان کی سفارش فرمانے لگیں ۔ پتہ چلا کہ اللہ کی نافرمانی نہ صرف دلوں کی تباہ کرتی ہے بلکہ اہل اللہ کی سفارش سے بھی محرومی کا سبب بناجاتی ہے۔ قوم کا اور قوم کے سرداروں کا ابھی تک یہی حال تھا کہ انھیں کشتی بناتے دیکھتے تو مذاق اڑاتے کہ اور سنو یہ جہاز سازی ہورہی ہے ۔ یہاں پانی کا قحط ہے پینے کو تو ملتا نہیں بڑے میاں ریت پر جہاز چلائیں گے حالانکہ اللہ بندوں کے ہر کام میں حکمت ہوتی ہے مگر دنیا دار اپنی نگاہ سے دیکھتا ہے تو اسے وہ کام الٹا نظر آتا ہے ۔ تو انھوں نے فرمایا کہ آج تم ہم سے مذاق کرتے ہو مگر کل تک تم خود تقدیر کے مذاق کانشانہ بننے والے ہو ہم یقینا تمہیں یہ وقت یاددلائیں گے اور خود تمہیں بھی پتہ چل جائے گا جس بات کا آج ہمیں بذریعہ وحی علم ہے کل اس کے واقع ہونے پر تمہیں بھی علم ہوجائے گا کہ کون اللہ کے گرفت میں آکر رسواہوتا ہے اور تباہی کی نذرہوکردائمی اور ابدی عذاب میں گرفتار ہوتا ہے کہ یہ ذ(رح) لت ورسوائی وقتی اور عارضی نہیں بلکہ جو لوگ عذاب الٰہی میں گرفتار ہوکرتباہ ہوتے ہیں وہ ہمیشہ عذاب ہی میں مبتلارہتے ہیں۔ چنانچہ جب اللہ کا مقرر کردہ وقت آپہنچا اور تنورتک سے پانی ابلنے لگا ۔ مفسرین نے یہاں مختلف باتیں لکھی ہیں کہ سطح زمین کو بھی تنور کہا جاتا ہے بلند ی پہ بھی بولا جاتا ہے اور روٹی پکانے کا ایک خاص چولہا بھی تنور کہلاتا ہے تو اس لحاظ سے بھی درست ہے کہ ساری زمین سے بھی اور بلند یوں سے بھی پانی ابلنے لگا اور تنور جہاں ہمیشہ آگ جلتی ہے وہ بھی چشمے بن گئے ۔ اور یہ رائے بھی ہے اور درست ہوسکتی ہے کہ نوح (علیہ السلام) کو طوفان کی نشانی کے طور پر بتایا گیا تھا کہ جب تنور ابلنے لگے اور اس میں سے پانی نکلنا شروع ہوجائے تو آپ خودبھی اپنے پیروکاروں کو بھی اور ہرچیز کا ایک ایک جوڑا بھی جہاز میں سوار کر الیجئے ۔ چناچہ جیسے ہی پانی ابلناشروع ہواتو انھوں نے اپنے گھر والوں میں سے سب مسلمانوں کو اپنے ماننے والوں کو اور ان جانوروں کو جو جوڑے سے پیدا ہوتے ہیں کشتی یا جہاز میں سوار کرلیا ایسے جانور جو پانی میں زندہ نہیں رہ سکتے اور انسانی زندگی کی ضرورت تھے ساتھ رکھ لئے اور وہ لوگ جن کے حق میں تباہی کا فیصلہ ہوچکا باقی رہ گئے اور فرمایا ان کے ساتھ سوار ہونے والے لوگوں کی تعداد بہت کم تھی حضرت عبد اللہ ابن عباس ؓ کے مطابق سب ملا کر اسی مرد اور خواتین تھے جن میں آپ کی تین بیویاں اور تین بیٹے بھی شامل تھے ۔ چوتھا بیٹا کفار کے ساتھ غرق ہو کر تباہ ہوا اور ایک بیوی بھی ۔ لہٰذا فرمایا کہ سوارہوجاؤ کہ اس کا چلنا اور ٹھہرنا سب اللہ کے حکم سے ہے اور میرارب بہت بڑا بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے ۔ دراصل سب چیزوں کا چلنا یا کام کرنا اللہ کریم ہی کی عطا ہے کہ جس نے کائنات میں مختلف چیزیں پیدافرمائیں ، انسان کو عقل اور فراست دی چناچہ وہ مختلف دھاتوں سے طرح طرح کے کل پرزے بناکر جوڑتا ہے تو عجیب غریب ایجادات سامنے آتی ہیں اور انسانی خدمت کافریضہ انجام دیتی ہیں مگر اس سب کے باوجود قادر مطلق کے قبضہ قدرت میں رہتی ہیں اور وہ جب روک دے رک جاتی ہیں بلکہ جب الٹ دے تو الٹ جاتی ہیں اور نفع کی بجائے نقصان پہنچاتی ۔ یہ بات جدید دنیا کی بڑی بڑی ایجادات سے واضح ہے اور یہی کفر واسلام کا فرق ہے کہ کافر اسے اپنا کمال جانتا ہے اور مومن اللہ کی عطاسمجھ کر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے نیز مسلمانوں کو چاہیئے کہ جب یہ اللہ کے انعامات میں سے ہے تو اس پر بہت زیادہ توجہ دیں ۔ نبی سے رشتہ جان بچانے کو بھاگنے لگے تو آپ وہ بیٹا جسے ایمان نصیب نہ ہوا تھا اور اس وجہ سے کشتی میں سوار نہ تھا بھی بھاگنے والوں کے ساتھ تھا جبکہ نوح (علیہ السلام) نے پکارا کہ اب بھی ایمان لاکر کشتی میں سوار ہوجاؤکہ سوار ہونے کی شرط تو ایمان تھی صرف نسبی رشتہ کافی نہ تھا لہٰذا یہ قانون ہے کہ نبی سے ایمان کا رشتہ ہی معتبر ہے اگر ایمان کے ساتھ نسبی رشتہ بھی ہو تو نور علیٰ نور ورنہ بغیر ایمان کے نسبی رشتے کا کوئی اثر نہیں نہ اس کی کوئی اہمیت باقی رہتی ہے ۔ نوح (علیہ السلام) نے تو آخری لمحے بھی کافروں کا ساتھ چھوڑدینے کے لئے کہا مگر وہ بد نصیب بولا میں بھاگ کر پہاڑ پر جارہا ہوں مجھے طوفان کا غم نہیں میرا کچھ نہیں بگڑے گا۔ تو انھوں نے فرمایا جب اللہ کی گرفت آتی ہے تو ظاہری اسباب اس کا دفاع نہیں کرسکتے اور ناکام ہوجاتے ہیں۔ پہاڑ اور بلندیاں عام طوفانوں سے تو بچالیں مگر یہ تو عذاب الٰہی ہے اور اس سے بچنے کے لئے صرف اللہ کی رحمت کام آسکتی ہے ۔ فرمایا آج کوئی کام نہیں آئے گا سوائے اس کے کہ اللہ رحم فرمائے اور اس کی رحمت تو ایمان لاکرہی پاسکوگے۔ بس یہ باتیں ہورہی تھیں کہ ایک لہر اٹھی اور اسے بہا کرلے گئی بلکہ وہ پہاڑ جن کو وہ پناہ گاہ سمجھ رہے تھے بھی غرق ہوگئے اور روایات میں ہے کہ پانی اونچے سے اونچے پہاڑ سے بھی بہت بلند ہوگیا تھا۔ جب کفار غرق ہوکرتبا ہوچکے اور بجزکشتی نوح زمین پر کوئی انسان نہ بچاتو ارشاد ہوا اے زمین ! اپنا پانی نگل لے اور اے آسمان ! اپنا پانی روک لے ۔ یہاں زمین وآسمان کو براہ راست حکم فرمایا جانا مذکور ہے کہ کائنات کی ہر شے اگر انسان کے برابر شعور نہ رکھتی ہو مگر اپنی استعداد کے مطابق ہر شے کو شعور حاصل ہے اور ہر ذرے کا تعلق ذات باری سے ہے اور ہر آن اللہ کی اطاعت پہ کمربستہ ہیں ۔ لہٰذا بعض اوقات اسباب ترتیب دیئے جاتے ہیں تو کام ہوجاتا ہے مگر جب اظہار قدرت منظور ہو تو کائنات کے کسی بھی ذرے کو یا آسمان و زمین کو براہ راست ارشاد ہوتا ہے اور ہر شے تعمیل ارشاد کرتی ہے بلکہ کائنات کا ہر ذرہ اللہ کا ذکر کرتا ہے ۔ جیسے ارشاد ہے وان من شییء الا یسبح بحمدہ۔ یعنی کوئی شے ایسی نہیں جو اللہ کی پاکی بیان نہ کرتی ہو۔ چناچہ زمین آسمان نے تعمیل ارشاد کی اور قصہ تمام ہوا۔ نوح (علیہ السلام) کی کشی جودی پہاڑ پر ٹھہری اور کافروں کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے رحمت الٰہی سے محروم کردیا گیا۔ جودی نام کا پہاڑ آج بھی عراق میں ہے جو غالبا ایک بہت بڑے کو ہستانی سلسلے کا حصہ ہے اور اسی کے ایک حصہ کا نام ارارابط ہے جس کا تذکرہ بعض دیگر کتب میں ہے مفسرین کے مطابق طوفان کے تھمنے اور پانی خشک ہونے اور کشتی کے زمین پر لگنے میں کئی ماہ صرف ہوئے۔ رشتوں اور قومیتوں کا مدار نیز دعا کے آداب جب طوفان زوروں پر تھا اور بیٹے نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعوت قبول نہ کی تو انھوں نے رب جلیل سے دعا فرمائی کہ اے اللہ ! تو نے میرے خاندان کو بجانے کا وعدہ فرمایا تھا اور تیرے وعدے تو برحق ہیں۔ پھر میرابیٹا جو میراخون ہے کیوں غرق ہورہا ہے ؟ یہ بھی تو میراخاندان ہے اور تو تو ہرچیز پہ قادر ہے اسے ایمان بھی عطا کرسکتا ہے اور کشتی پہ آنے کی توفیق بھی ۔ بھلاتو چاہے تو موج ہی اس کی محافظ بن سکتی ہے تو ارشاد ہوا کہ اے نوح ! وہ تیرے خاندان میں سے نہیں ہے اس لئے کہ اس کا کردار غیر صالح ہے تو یہ بات واضح ہوگئی کہ مومن وکافر میں رشتہ اخوت نہیں ہے اگرچہ کتناہی قریبی رشتہ ہو۔ دین کے معاملات میں اس کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔ یہی بات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی حیات مبارکہ سے ثابت ہے کہ اسلام کے ابتدائی معرکے تو اکثر بھائیوں اور باپ بیٹوں کے درمیان لڑے گئے مگر کافر کو الگ قوم شمار کیا گیا خواہ بھائی تھا اور مومن کو بھائی جانا گیا خواہ بظاہربیگانہ تھا ۔ لہٰذا وطنی یالسانی یارنگ ونسل کی تقسیم درست نہیں قبائل اور ان کا نام انسان کی پہچان تو ہے لیکن سندھی پنچابی اور پٹھان وغیرہ کی تقسیم اور آپس میں لڑائی جائز نہیں مسلمان سب مسلمان ہیں اور اس کے بعد کچھ اور۔ چونکہ راستہ اپنا نے کا فیصلہ انسان کا ذاتی ہے اگرچہ اللہ قادر ہے کہ زبردستی کرسکتا ہے مگر اس نے طے کردیا کہ یہ کام حکمانہ ہوگا ورنہ پھر سارا نظام عدل غیر ضروری ٹھہرے گا ہاں ! جو انسان صدق دل سے اس کی طلب کا فیصلہ کرلے اسے بڑھ کر تھام لینا یہ اس کی رحمت ہے اور جو منہ موڑ لے اسے زبردستی نہ پکڑاجائے گا تو ارشاد کا معنی یہ ہوا کہ اس کا کردار ایسانامناسب ہے کہ اب اس کا دل ایمان قبول کرنے کی صلاحیت ہی سے محروم ہوگیا اور یہ بات تو اللہ کریم کے علم میں ہے کہ ہر شخص کا ایک تعلق اپنے مالک سے ایسا ہے جسے صرف اللہ جانتا ہے اس میں کسی فرشتے یانبی ولی کا بھی دخل نہیں سوائے اس کے کہ اللہ کریم ہی کسی کو اطلاع کردیں تو فرمایا کہ آپ ایسے امور کے بارے دعانہ کریں جن کے بارے آپ کو علم نہیں ۔ لہٰذا جب تک کسی بات کی خبرنہ ہو ہر آدمی کے کہنے پر اور ہر کام کے لئے دعا کرنا جائز نہ رہا بلکہ اگر کسی بات کے ناجائز ہونے کا پتہ ہو یا شبہ بھی ہو تو دعانہ کی جائے کہ دعا مانگنے والا خطاکار ہوگا ۔ ایسے ہی لوگوں کی ترقی واقتدار کی دعا کیا خبر کوئی کیسا ہوگا ۔ ہاں ! خیر اور اصلاح کے لئے اور بھلائی کے لئے دعا کی جائے ۔ چناچہ فرمایا کہ آپ کی شان بہت بلند ہے آپ کو ایسی دعانہ کرنا چاہیئے ، اللہ کریم کی طرف سے نصیحت کی جاتی ہے کہ نادانی آپ کو زیب نہیں دیتی اور یہی عصمت نبوت ہے کہ ذرا بھی بھول چوک ہونے لگے تو فورا اللہ کریم کی طرف سے مطلع کردیا جاتا ہے۔ یہاں اگر فطری شفقت پدری نے سراٹھایا تو فورا متنبہ فرمادیا گیا چناچہ عرض کیا اللہ ! میں ایسے کاموں سے تیری ہی پناہ چاہتا ہوں کہ تو ہی میری حفاظت فرما اور اگر تیری بخشش اور تیرا رحم یاوری نہ کرے تو انسان بھلا کیسے بچ سکتا ہے ۔ یہاں یہ طریقہ عمل ارشاد ہوتا ہے کہ خطاکا ہوجانا بڑی بات نہیں مگر اللہ سے اس کی معافی طلب کی جائے اور آئندہ چھوڑ نے پختہ عزم کرکے اللہ سے توفیق طلب کی جائے تنہا اپنے ارادے پہ بھروسہ نہ کیا جانا چاہیئے کہ انسان کو بہت سے فطری جذبات اکثر اوقات مجبور کردیتے ہیں لہٰذا اللہ کریم سے مدد طلب کی جائے۔ چنانچہ جب زمین رہائش کے قابل ہوئی اور پانی خشک ہوچکا تو ارشاد ہوا کہ اب پہاڑ پر اتریئے اور اسی زمین پر جس پر کفر کے باعث طوفان آئے آپ کے ساتھ ہماری طرف سے سلامتی اور برکات کا مشاہدہ ہوگا۔ آفات سے حفاظت کے ساتھ مال اور اولاد میں اضافہ دیکھئے ۔ مفسرین کرام کے مطابق یہاں ثابت ہے کہ روئے زمین پر پھر سے آبا دہونے والے سارے لوگ صرف حضرت نوح (علیہ السلام) کی اولاد سے ہوئے ہیں۔ اسی لئے انھیں آدم ثانی بھی کہا جاتا ہے لہٰذا یہاں قیامت تک آنیوالے مسلمانوں اور اطاعت شعاروں کو سلامتی اور برکت کا وعدہ دیا گیا ہے مگر یہ بات یاد رہے کہ پسرنوح کا قصہ اس کی بہترین مثال ہے یعنی اس سلامتی اور ان برکات سے مستفید ہونے کے لئے ایمان اور عمل ضروری ہیں ۔ ورنہ جو لوگ آپ کی اولاد میں پھر سے کفر وسرکشی اختیار کریں گے تو ان کا انجام پہلے سے مختلف نہ ہوگا کہ جب تک مہلت ہے موت سے یا عذاب سے تو دنیا کی سہولتوں اور نعمتوں سے فائدہ اٹھائیں گے مگر آخر کار اپنے انجام کو پہنچیں گے اور اللہ کا عذاب انھیں اپنی لپیٹ میں لے لے گا جو بہت درد ناک اور بڑا شدید ہوتا ہے۔ اے حبیب ﷺ یہ سب باتیں بہت پہلے گزرچکیں نہ آپ کے علم مبارک میں تھیں اور نہ آپ کی قوم نوح (علیہ السلام) کے قصہ کی حقیقت سے آگاہ تھی نہ آپ ﷺ کسی مکتب دمدرسہ میں تشریف لے گئے نہ کسی عالم اور اہب کے پاس سنی تو یہ سب امور غیب میں سے تھا جس پر اللہ نے آپ ﷺ کو مطلع فرمایا اور واقعات کی جزیات تک ارشاد فرمادیں ۔ لہٰذآپ ﷺ کے پاس وحی آنے کے دوسرے روشن دلائل کے ساتھ اس قدرصحت سے ان واقعات کا بیان بھی ایک زبردست دلیل ہے ۔ لیکن کچھ بدنصیب اگر پھر بھی قبول نہ کریں تو آپ صبر فرمایئے کہ پہلے انبیاء نے بھی ایسا ہی کیا تھا ۔ نوح (علیہ السلام) بھی کم وبیش ہزارسال تک برداشت فرماتے رہے ۔ آپ بھی صبر کیجئے اور یہ تو اللہ کا قانون ہے کہ انجام کار وہی لوگ کامیاب ہیں جو متقی اور پرہیزگار ہیں دار دنیا ہو یا آخرت کامیابی متقین ہی حصہ ہے۔
Top