Asrar-ut-Tanzil - Hud : 69
وَ لَقَدْ جَآءَتْ رُسُلُنَاۤ اِبْرٰهِیْمَ بِالْبُشْرٰى قَالُوْا سَلٰمًا١ؕ قَالَ سَلٰمٌ فَمَا لَبِثَ اَنْ جَآءَ بِعِجْلٍ حَنِیْذٍ
وَلَقَدْ جَآءَتْ : اور البتہ آئے رُسُلُنَآ : ہمارے فرشتے اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم بِالْبُشْرٰي : خوشخبری لے کر قَالُوْا : وہ بولے سَلٰمًا : سلام قَالَ : اس نے کہا سَلٰمٌ : سلام فَمَا لَبِثَ : پھر اس نے دیر نہ کی اَنْ : کہ جَآءَ بِعِجْلٍ : ایک بچھڑا لے آیا حَنِيْذٍ : بھنا ہوا
اور یقینا ہمارے بھیجے ہوئے (فرشتے) ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس خوشخبری لے کر آئے تو سلام کہا انہوں نے بھی اسلام کہا پھر دیر نہیں کی کہ ایک تلا ہوا بچھڑا لے کرآئے۔
آیات 69 تا 83 اسرار و معارف اعمال وکردار اور ان پر مرتب ہونے والے نتائج کا یہ فرق اس واقعہ سے بھی ظاہر ہے کہ جب ہم نے ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس اپنے فرشتے بھیجے کہ انھیں اولاد کی خوشخبری دیں وہی فرشتے جو ان کے لئے نوید مسرت لائے تھے قوم لوط پر تباہی لانے کے لئے بھی مامور تھے جو ان سے صرف دس بارہ میل آباد تھی۔ یہ فرشتے انسانی شکل میں پہنچے تو ابراہیم (علیہ السلام) نے سمجھا کوئی مہمان آگئے ہیں ۔ جب انھوں نے سلام کیا اور آپ نے سلام کا جواب دیا انھیں بٹھایا اور فورا ایک بچھڑاتل کرلے آئے چونکہ آپ کے ہاں گائے بیل تھے تو ایک موٹا تازہ بچھڑاکاٹ کر پکاکر حاضر کردیا۔ سلام اور جواب یہاں ظاہر ہے کہ ہر قوم میں ملاقات کے وقت چند خوشگوار کلمات کاتبادلہ تو ہوتا ہے جیسے اسلام نے ہر دور میں سلامتی کی دعا اور جواب دعا کے طور پر مقرر کیا ہے ۔ ایسے ہی نبی اکرم ﷺ کے طفیل بھی عطا ہوا ہے کہ السلام علیکم اور جواب میں وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ کہاجائے یہ نہ صرف دعا ہے بلکہ ملنے والے ایک دوسرے کو اپنے سے سلامتی کی ضمانت بھی دیتے ہیں کہ مجھ سے تمہیں نقصان کا اندیشہ نہ ہونا چاہیئے اور دوسرے آداب مہمان داری میں ہے کہ اپنی حیثیت کے مطابق مہمان کی تواضع کرنا سنت انبیاء ہے بغیر کسی تکلیف میں پڑے جو کچھ ممکن ہو اچھی طرح سے حاضر کردے ۔ اطلاع من الغیب اور عقدہ بھی کھلا کہ انبیاء اپنے علم کی وسعت کے باوجود ہر آن اللہ کے دربار میں ہی امیدوار کرم رہتے ہیں اور وہی جانتے ہیں جو وہ بتاتا ہے کہ فرشتے تھے انھوں نے کھانا تو نہ کھانا تھا مگر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پہچان نہ سکے اور انسان سمجھ کر تو اضع کی لیکن جب انھوں نے کھانے کی طرف ہاتھ نہ بڑھایا تو آپ گھبراگئے کہ عرب اور فلسطین کا دستور تھا کہ دشمن کا کھانا نہ کھاتے تھے آپ نے سمجھا کہ شاید کوئی دشمن ہوں مگر فرشتوں نے عرض کیا کہ ہم تو اللہ کے بھیجے ہوئے فرشتے ہیں اور اللہ نے قوم لوط کو تباہ کرنے کے لئے بھیجا ہے تو ان کی بیوی ہنس دیں۔ غالیا اسی بات سے کہ کس قدر جلدی فرمائی بچھڑا ذبح کیا مجھ سے پکوایا اور اب پتہ چلا کہ یہ تو فرشتے ہیں انھیں کھانے پینے سے غرض نہیں ۔ تو انھوں نے اس نیک بخت خاتون کو اسحاق (علیہ السلام) اور پھر ان کی اولا دمیں یعقوب (علیہ السلام) کے ہونے کی خوشخبری دی ، یعنی علوم غیبیہ بر اللہ کی طرف سے مطلع فرمادیا تو وہ بہت حیران ہوئیں کہ عمر رسیدہ تھیں اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی بوڑھے ہوچکے تھے تو فرمانے لگیں اب میری اولاد ہوگی ؟ اس عمر میں جس میں تو عادتا بھی خواتین اولاد کے قابل نہیں رہتیں اور پھر یہ میرے شوہر یہ بھی تو بوڑھے ہوچکے ہیں اور اب ہم لوگ اولاد کے قابل کہاں یہ تو بہت ہی عجیب بات ہے تو فرشتوں نے عرض کیا اللہ کے کاموں میں کیا تعجب ؟ وہ تو اسباب کا محتاج نہیں بلکہ خود اسباب بھی اس کی ذات کے محتاج ہیں اور پھر آپ کی عمر تو خاندان نبوت میں بسرہوئی کس قدرعجائبات آپ نے زندگی بھردیکھے اور کتنے انقلاب آپ کی نگاہوں کے سامنے گزرگئے کہ اسباب خلاف تھے مگر نتیجہ حق میں نکلا۔ آگ گلزار بن گئی حکمرانوں کو منہ کھاناپڑی اور بےگھر ہوکرنکلے تو گھر نصیب ہوگیا بلکہ ساری انسانیت کے لئے اللہ کا گھر بنائیں گے لہٰذا آپ کو حیرت کرنے کی ضرورت نہیں کہ اللہ جو چاہے اور جب چاہے اپنی رحمت کے اظہار کا سبب بنادے وہ سب کچھ کرسکتا ہے ۔ تو جب ابرا ہیم (علیہ السلام) سے یہ خطرہ دور ہوا کہ دشمن نہیں بلکہ اللہ کے فرشتے ہیں اور بڑھا پے میں اولاد اور اپنے بچوں کے نبی ہونے کی خبرسنی تو بہت مسرور ہوئے مگر آپ بہت ہی حلیم الطبع اور نرم دل تھے اب قوم لوط کی سفارش فرمانے لگے کہ اگر ہوسکے تو یہ تباہی سے بچ جائیں اور اس پر اس قدر اصرار فرمایا کہ اللہ کریم فرماتے ہیں یجادلنا فی قوم لوط کہ ابراہیم تو لوط کے حق میں ہم سے جھگڑنے لگے ۔ سبحان اللہ ! کس طرح اپنے بندوں کے نازاٹھاتا ہے بات ہی میں کس قدرلطف ہے۔ فرمایا اے میرے خلیل ! اے ابراہیم ! اب یہ بات بعد ازوقت ہے ۔ اب ان کے تائب ہونے کی امید نہ رکھیں کہ ان کی بدکاری کے باعث ان پر اللہ کا فیصلہ نافذ ہوچکا اور اب ان پر ایسا عذاب آئے گا جسے کوئی لوٹا نہیں سکتا تباہی ان کا مقدربن چکی ہے ۔ قوم لوط ہی وہ پہلی قوم تھی نے ہم جنسی کی عادت بدجاری کی اور اس فعل شنیع کا نام ہی لواطت پڑگیا ، اس میں اس قدر بےحیا ہوچکے تھے کہ بستی میں آنے والے مسافر بھی ان کی آوارگی سے محفوظ نہ رہتے ۔ اللہ کریم نے فرشتوں کو خوبصورت نوعمر لڑکوں کی شکل میں وہاں بھیجا جب وہ لوط (علیہ السلام) کے گھر گئے تو انھوں نے بھی مہمان ہی سمجھا اور بہت گھبرائے کہ یہ لوگ تو انھیں معاف نہ کریں گے اور یہ بہت بری بات ہے کہ مہان میرے گھر آئے اور اس کی یوں توہین ہو۔ ساتھ مصیبت یہ تھی کہ ان کی بیوی بھی غیرمسلموں سے رابطہ رکھتی تھی اور آپ کی نبوت پر ایمان نہ لائی تھی ۔ چناچہ اس نے لوگوں کو خبر کردی کہ آج ہمارے ہاں بہت خوبصورت لڑکے مہمان ہیں تو لوگ چڑھ دوڑے کہ وہ تو اس بےحیائی کے عادی ہوچکے تھے اور یہ ان کے قومی کردار کا حصہ بن چکی تھی اور جو بھی بدعادت پوری قوم کا وطیرہ بن جائے پھر اس پر لوگ جھجک محسوس نہیں کرتے ۔ چناچہ وہ آکر آپ سے مطالبہ کرنے لگے کہ یہ لڑکے ہمارے سپردکریں ۔ خواتین بھی تماشادکھنے جمع ہوگئیں تو آپ نے فرمایا کہ قوم کی یہ لڑکیاں جو میری بیٹیاں ہیں اور تمہاری منکوحہ جب اللہ نے تم پر انھیں حلال کردیا اور تمہارے لئے ان کو جائز قرار دیا تو پھر ایسا کیوں کرتے ہو ؟ کچھ خوف خدا کرو اور مجھے میرے مہمانوں کے سامنے شرمندہ نہ کرد اور میری توہین کرکے یرے مہمانوں کو پریشان کرکے مجھے دکھ نہ دو ۔ وہ کہنے لگے ہمیں تو عورت میں کوئی دلچپسی ہی نہیں اور آپ کو بھی اس کا بخوبی علم ہے اور آپ یہ بھی جانتے ہیں کہ ہم کیا چاہتے ہیں تو آپ ہمارا رارستہ نہ روکیں ورنہ ہم زبردستی کریں گے۔ انھیں بہت دکھ پہنچا فرمانے لگے کاش میں تمہارے ساتھ لڑسکتا کاش ! آج میرے ساتھ بھی میری قوم یا متبعین کی جماعت ہوتی تو میں ظلم کو روکنے اور مٹانے کے لئے میدان میں تمہیں جواب دیتا تو آپ کا یہ اضطراب دیکھ کر فرشتوں نے عرض کیا اللہ اپنے بندوں کو رسوا نہیں ہونے دیتا ہم ہی آپ کی جماعت ہیں اور آپ بےفکر ہوکردرمیان سے ہٹ جائیں اب یہ آپ کا کچھ بھی نہیں بگاڑسکیں گے بلکہ تیاری کریں اور اپنے سارے متبعین کو لے کر رات کو آبادی سے نکل جائیں سوائے آپ کی اہلیہ کے جو بیوی ہونے کے باوجود ایمان نہیں رکھتی لہٰذاجو قوم جیسا عقیدہ رکھتی ہے انہی کے ساتھ نتائج بھی بھگتے گی اور ذرارات ڈھلتی دیکھیں کہ ان پر صبح کیسے اور کس حال میں طلوع ہوتی ہے کیا صبح قریب نہیں ؟ یعنی رات بھر آخرکتنا وقت ہوتا ہے اور صبح تو ہونے والی ہے۔ چنانچہ ان پر عذاب وارد ہوا اور اوپر کی طرف کو پلٹ کرنیچے کردیا گیا یعنی حضرت جبرائیل (علیہ السلام) نے ان کی بستیاں جو چار بڑے بڑے شہروں پہ مشتمل تھیں زمین سمیت اکھیڑلیں اٹھا کر آسمان کے قریب لے گئے اور وہاں سے الٹ دیا اور ان پر خاص قسم کے پتھر برسائے گئے جس نے ساری زمین سمیت ہر شے کو کچل دیا ایسے پتھر جو انہی کے نام پر نشان کردہ تھے جن کے خطاجانے کا بھی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور یہ قانون الٰہی ہے کہ کفار اور ظالموں سے عذاب الٰہی کبھی دور نہیں ہوتا ۔ جیسا کسی کا عمل ہوتا ہے ویسی ہی اس پر عذاب کی صورت مرتب ہوجاتی ہے لہٰذا اب بھی کفر اور ظلم اختیار کرنے والوں کو خود کو عذاب سے محفوظ نہ سمجھنا چاہیئے۔
Top